رسائی کے لنکس

اشرف غنی کے قتل کا کوئی منصوبہ نہیں تھا: طالبان لیڈر ملا برادر


ملا برادر (فائل فوٹو)
ملا برادر (فائل فوٹو)

طالبان کے نائب وزیر اعظم، ملا عبدالغنی برادر نے سابق افغان صدر اشرف غنی کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ افغانستان سے اس لیے فرار ہوئے کہ انہیں خوف تھا کہ طالبان انہیں قتل کر دیں گے۔

سرکاری ٹیلی ویژن چینل، 'ریڈیو ٹیلی ویژن آف افغانستان (آر ٹی اے)' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ملا برادر نے کہا کہ سابق صدر کو قتل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔

وائس آف امریکہ سمیت کئی ذرائع ابلاغ کے ساتھ حالیہ انٹرویوز میں افغانستان کے قومی سلامتی کے سابق مشیر، حمد اللہ محب نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا تھا۔

ملا برادر نے دیگر امور پر بھی بات کی جن میں طالبان کی جانب سے سابق حکومت کے سیکیورٹی اہل کاروں کو ماورائے عدالت صادر کی جانے والی سزاؤں کا معاملہ بھی شامل ہے۔

بقول ان کے، ''گزشتہ حکومت کے فوجیوں کے ساتھ بظاہر کوئی زیادتی نہیں کی گئی؛ اگر کچھ معاملوں میں خفیہ طور پر ایسا کیا گیا تو ہم نے ملوث افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ہم اپنی سیکیورٹی فورسز کو یہ بھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی پر تشدد تک کریں۔''

ملا برادر نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے۔

آر ٹی اے کے ایک سوال پر برادر نے کہا کہ سابق سرکاری اہل کاروں کو طالبان حکومت میں شامل نہیں کیا جا سکتا، چونکہ، بقول ان کے، وہ بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے کہا کہ سابق افغان حکومت کی کابینہ کے کسی فرد کو طالبان کابینہ میں شمولیت کی پیش کش ممکن نہیں۔

افغانستان: 'طالبان خواتین اور انسانی حقوق کا خیال نہیں کرتے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:52 0:00

جب ان سے پوچھا گیا کہ بین الاقوامی برادری سب کی شمولیت پر مبنی جامع حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہی ہے، تو برادر نے دعویٰ کیا کہ اس مطالبے کے سلسلے میں دوحہ میں مذاکرات کے دوران امریکہ نے سابق حکومت کے چند اہل کاروں کے نام تجویز کیے تھے۔ برادر نے الزام لگایا کہ سابق حکومت کے عہدے دار ''راشی'' تھے؛ اور اس بات پر زور دیا کہ اگر چند ایک کو بھی اپنی کابینہ میں جگہ دی گئی ''تو اسلامی امارات کی یکجہتی کو'' مبینہ طور پر نقصان پہنچے گا۔

بقول ان کے، ''یہ لوگ ہماری حکومت میں ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے چونکہ اگر ان کی تعداد پانچ بھی ہو (یعنی پانچ کو بھی شامل کیا جائے) تو وہ حکومتی موقف کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں گے، اور ہم نہیں چاہیں گے کہ ہم ایسے افراد کو شامل کر کے حکومت کو مشکل میں ڈالیں''۔

دریں اثنا، برادر نے دعویٰ کیا کہ ''اسلامی امارات نے حکومت تسلیم کیے جانے کے لیے لگائی گئی شرائط پوری کر دی ہیں، اس لیے دنیا ہمیں باضابطہ طور پر تسلیم کرے''۔

ان کے الفاظ میں، ''اسلامی امارات نے اپنے آپ کو تسلیم کرانے کی شرائط پوری کر دی ہیں اور اب دنیا کو چاہیے کہ وہ ہماری حکومت کو تسلیم کرے''۔

برادر نے اس بات پر زور دیا کہ اگر دنیا ہمیں تسلیم نہیں کرتی تو ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہو گا، جس سے نہ صرف افغانستان متاثر ہو گا بلکہ ہمسایہ ملکوں اور دنیا پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

لڑکیوں کی تعلیم اور یونیورسٹیاں کھولنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں برادر نے کہا کہ تعلیم کا حصول، ہر ایک کا حق ہے۔ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کو کھولنے سے متعلق دو ایسے امور ہیں جن کا تعلق معاشی مسائل اور اخلاقی اقدار سے ہے۔

بقول ان کے، ''شعبہ تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ معیشت مضبوط ہو، جب معاشی چیلنجوں کو حل کیا جائے گا تو ہم تعلیم پر توجہ مبذول کر سکیں گے۔''

[اس خبر کا مواد ریڈیو ٹیلی ویژن آف افغانستان سے لیا گیا ہے]

XS
SM
MD
LG