رسائی کے لنکس

پرانی حلقہ بندیوں کے تحت الیکشن: کیا ایم کیو ایم کے اعتراضات جائز ہیں؟


پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے اب بھی ابہام ہے وہیں حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نئی حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے حوالے سے تحفظات برقرار ہیں۔

ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہوں جب کہ حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہی ہوں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اسپیشل سیکریٹری ظفر اقبال نے واضح کیا ہے کہ آنے والے انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہی ہوں گے اور اگر قومی اسمبلی کی تحلیل 12 اگست کو مدت مکمل ہونے پر ہی کی گئی تو الیکشن کمیشن 11 اکتوبر سے پہلے ہی الیکشن کرا دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس سے قبل قومی اسمبلی کی تحلیل ہوتی تو پھر قوانین کے تحت تین ماہ یعنی 90 روز میں الیکشن کرا دیے جائیں گے جو نومبر تک ممکن ہوسکیں گے۔

دوسری جانب سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کا بھی یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اگر نئی مردم شماری کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے ہو جاتی ہے تو نئی حلقہ بندیوں کے لیے چار سے ساڑھے چار ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ لیکن اس کا فیصلہ نئی مردم شماری کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس حوالے سے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ نئی مردم شماری کے نتائج کو نوٹی فائی نہیں کیا جائے گا اور اس لیے الیکشن پرانی حلقہ بندیوں اور گزشتہ مردم شماری ہی کے تحت منعقد کیے جائیں گے۔

لیکن اس پر اتحادی جماعتوں بالخصوص ایم کیو ایم کی جانب سے کافی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور وہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی الیکشن کی خواہاں ہے۔

ایم کیو ایم کے ایک وفد نے پارٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں وزیرِ اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی تھی اور اس میں اس معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔

ترجمان ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں ایم کیو ایم کے وفد کو بتایا کہ انتخابات پرانی مردم شماری پر کرانے کا اب تک فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے وائس آف امریکہ کے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ان کی جماعت جہاں وقت پر انتخابات چاہتی ہے، وہیں ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ یہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہونے چاہئیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ حلقہ بندیوں کا یہ عمل 15 سے چند ہفتوں ہی میں مکمل کیا جا سکتا ہے یوں اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے اور ملک میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت عام انتخابات ہونے چاہئیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیرِاعظم سے بھی ملاقات میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر ہونے چاہئیں اور ہمیں مکمل یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔

'ایم کیو ایم کے مطالبے پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا'

تجزیہ کار اور صحافی مجاہد بریلوی کا کہنا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مردم شماری پر بہت سے اعتراضات جائز اور ٹھیک دکھائی دیتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم شہباز حکومت میں رہ کر بھی اس نکتے پر عمل درآمد نہ کرا سکی جو پی ڈی ایم کے ساتھ اتحاد کے وقت معاہدے کا حصہ بنایا گیا تھا۔

ان کے خیال میں اس صورتِ حال میں ایم کیو ایم کے لیے کوئی آپشن نہیں بچتا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرے۔ ایسا کرنے سے وہ اگلے پانچ برس کے لیے قومی سیاست سے باہر ہو جائے گی جو اس کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں ہو گا۔

'نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے میں چار ماہ سے بھی زائد لگ سکتے ہیں'

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا بھی کہنا ہے کہ مردم شماری کا عمل مئی میں ختم ہو چکا ہے اور دو ماہ بعد بھی اس کے نتائج جاری نہ کرنے سے اس کی شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اُن کے بقول مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے تحت ملک میں دسمبر 2022 تک مردم شماری کا عمل مکمل کیا جانا تھا۔ لیکن یہ عمل شروع ہی مارچ 2023 میں ہوا اور مئی کے وسط میں جا کر مکمل ہوا۔

دوسری صورت میں اگر مردم شماری کے نتائج جاری کر دیے جاتے ہیں تو اس صورت میں الیکشن شیڈول متاثر ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

کنور دلشاد کے بقول نئی حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیشن کو کم از کم چار ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اگر ان پر کوئی قانونی اعتراض آ جائے تو اس صورت میں مزید وقت بھی لگ سکتا ہے۔

الیکشن کے بعد سندھ کا متوقع منظر نامہ کیا ہو گا؟

سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی گزشتہ مردم شماری کے نتائج پر اعتراض کیا تھا اور اس اعتراض کے بعد مشترکہ مفادات کونسل میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ قومی انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے تحت منعقد ہوں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ میں حالیہ مردم شماری کے نتائج پر بھی تنقید کرتے ہوئے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

بعض رہنماوں کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پرانی مردم شماری ہی کے تحت انتخابات کرائے گئے تو اس کے خلاف وہ سپریم کورٹ جائیں گے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت اس مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے کیوں کہ اب اسے یہ توقع ہے کہ آئندہ انتخابات ہونے کی صورت میں اسے پہلے سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔

تجزیہ کار اور سندھی روزنامہ عوامی آواز کے ایڈیٹر ایوب شیخ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں فی الحال عام انتخابات میں کسی مضبوط اپوزیشن کا سامنا نہیں۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ صوبے میں الیکٹیبلز بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی یہ پوزیشن مستحکم ہونے میں خود ایم کیو ایم، سندھ قوم پرستوں اور صوبے میں موجود وڈیروں کا کردار ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ وہ اس بار بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بھی قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

دوسری جانب گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے رکن قومی اسمبلی غوث بخش خان مہر، رکن سندھ اسمبلی شہریار مہر اور سابق ضلعی ناظم عارف خان مہر نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔

XS
SM
MD
LG