اقوام متحدہ نے ہفتے کو خبردار کیا کہ ہزاروں شامیوں کو تیزی سے خراب ہوتی ہوئی صورتحال کا سامنا ہے۔ حکومتی فورسز، داعش اور خانہ جنگی میں شریک دیگر باغی گروہوں نے دیرالزور میں امداد کا راستہ روک رکھا ہے اور وہاں گزشتہ دس ماہ سے بجلی کی سہولت موجود نہیں اور ایک ہفتے میں صرف تین گھنٹے کے لیے پانی دستیاب ہوتا ہے۔
شام کے 15 محصور علاقوں میں ساڑھے چار لاکھ آبادی کے ساتھ دیر الزور سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ ایک اور محصور شہر مضایا میں اس ماہ دو امدادی قافلے بھیجے گئے مگر مقامی امدادی کارکنوں کے مطابق شہر میں فاقے سے 32 اموات واقع ہو چکی ہیں۔ مضایا کی آبادی 42,000 نفوس پر مشتمل ہے۔
جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہنگامی امداد کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر کانگ کیونگ وا نے کہا کہ ہزاروں شامی خانہ جنگی کے باعث خوفناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خوراک، پانی اور دواؤں کی فراہمی کو سودے بازی کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔
کانگ نے کونسل کو یاد دلایا کہ چار سال سے زائد عرصہ سے امدادی ادارے جنگ کے عام شہریوں پر اثرات کے بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جمعرات کو شام میں صورتحال کو ’’انتہائی نامعقول‘‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ جنگ کے دوران بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔
بان کی مون نے نیویارک میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے2016 کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مضایا سے آنے والی اندوہناک تصاویر سے زیادہ شاید ہی کوئی اور چیز فوری کارروائی کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘
مضایا میں امداد پہنچانے والے کارکنوں نے بتایا کہ انہوں نے ’’بڑوں اور بچوں، مردوں اور عورتوں کو ہڈیوں کے ڈھانچے بنے دیکھا، زرد رو، خوراک کی انتہائی کمی کا شکار، اتنے کمزور کہ چل بھی نہیں سکتے اور چھوٹے سے نوالے کے لیے بھی بے قرار۔‘‘
اقوام متحدہ نے صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے فراہم کی گئی غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے حوالے سے کہا ہے کہ گزشتہ سال دير الزور میں 15 سے 20 افراد فاقوں سے موت کے منہ میں چلے گئے۔