|
پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے 'فائر وال' کی تنصیب کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائبر حملوں سے بچنے کے لیے پاکستان انٹرنیٹ سسٹم کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔
سینیٹ کی انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ کمیونیکیشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شزہ فاطمہ نے ملک میں انٹرنیٹ کی سست رفتار سے متعلق کہا کہ "یہ سائبر سیکیورٹی کا ایک اقدام ہے جو دنیا میں ہر حکومت لیتی ہے۔"
ان کے بقول "پہلے ویب مینجمٹ سسٹم تھا جسے حکومت چلا رہی تھی۔ اب اس کی اپ گریڈیشن ہو رہی ہے۔"
پاکستان میں گزشتہ چند روز سے انٹرنیٹ سروس سست روی کا شکار ہے جس کے باعث آن لائن کاروبار سے منسلک افراد کے ساتھ ساتھ گھریلو صارفین بھی انٹرنیٹ نا چلنے کی شکایت کر رہے ہیں۔
انٹرنیٹ اسپیڈ اور مختلف سوشل میڈیا سائٹس کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ای کامرس اور دیگر شعبے بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
انٹرنیٹ سرور پرو وائیڈرز ایسوسی ایشن کے جمعرات کو جاری ایک بیان کے مطابق سیکیورٹی اور نگرانی بڑھانے کے حکومتی فیصلے کے باعث گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انٹرنیٹ کی رفتار میں 30 سے 40 فی صد تک کمی آئی ہے۔
حالیہ عرصے آنے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 30 ارب روپے کی لاگت سے فائر وال نصب کی جا رہی ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو کنٹرول کرنا اور پاکستان میں آن لائن صارفین کے لیے دستیاب مواد کو فلٹر کرنا ہے۔
حکومت اور ریاستی اداروں کو سوشل میڈیا سے متعلق یہ شکایت رہی ہیں ان پر حکومت مخالف پروپیگنڈے اور الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ کہتی ہیں کہ جس طرح سائبر سیکیورٹی کے خطرات بڑھ رہے ہیں، ریاست کو بھی ان خطرات کے دفاع کے لیے اپنی استعداد بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر روزانہ کی بنیاد پر سائبر حملے ہو رہے ہیں۔ ان کے بقول اس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں گی کہ ملک پر کس قدر بڑے سائبر حملے ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب سینیٹ کی آئی ٹی کمیٹی نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملک میں جاری انٹرنیٹ کی سست روی کو دور کرے اور اس بارے میں کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں رپورٹ بھی پیش کرے۔
سیکریٹری آئی ٹی عائشہ حمیرا نے کمیٹی کو بتایا کہ براڈبینڈ انٹرنیٹ یا وائی فائی کے حوالے سے انٹرنیٹ کی شکایات نہیں ہیں البتہ موبائل فون آپریٹرز کی سروس میں خلل آنے کے باعث نیٹ ورکس پر مسئلہ آیا ہے۔
سینیٹ کی آئی ٹی کمیٹی کے رکن سینیٹر ہمایوں مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی پر کوئی قابلِ اطمنان جواب نہیں دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی کو صرف بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث انٹرنیٹ سست روی کا شکار ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ مسئلہ کب تک حل ہوجائے گا۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ 10 روز ہو چکے ہیں اور حکومت کو کوئی فکر لاحق نہیں کہ انٹرنیٹ سے وابستہ افراد کا روزگار کس قدر متاثر ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی اعدا و شمار بھی نہیں ہیں کہ انٹرنیٹ کی سست ہونے سے ہمارے آن لائن خدمات کے شعبے کو کس قدر نقصان ہوا ہے۔
ادھر سینیٹ کی آئی ٹی کمیٹی کی چیئر پرسن پلوشہ بہرام نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی کا مسئلہ آئندہ چند روز میں حل ہوجائے گا۔
فورم