رسائی کے لنکس

حالیہ ہفتوں کے مظاہروں میں شامل تنظیمیں اور افراد


مصر کے سابق حکمران حسنی مبارک اور لیبیا کے رہنما معمر قذافی (فائل فوٹو)
مصر کے سابق حکمران حسنی مبارک اور لیبیا کے رہنما معمر قذافی (فائل فوٹو)

حالیہ ہفتوں میں پورے شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں عام شہریوں نے آمرانہ حکومتوں کے خاتمے کے لیئے زبردست احتجاجی مظاہرے کیئے ہیں۔ وہ بہتر حکومت، بد عنوانیوں کا خاتمہ اور اقتصادی ترقی کے زیادہ مواقع چاہتےہیں۔ ان میں اسلامی گروپوں سمیت جن پر پابندی لگی ہوئی تھی، ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔

اپنے 23 سالہ دورِ اقتدار میں، تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی نے اسلام پسندوں سمیت حکومت کے مخالف تمام گروپوں کو کچل ڈالا۔ لیکن اب مسٹر بن علی رخصت ہو چکے ہیں اور کالعدم اسلامی النهضة (Ennahdha) پارٹی کے لیڈر ، راشد الغنوشی 22 سال کی جلا وطنی کے بعد تیونس واپس آ گئے ہیں۔ ائر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ انھوں نے اپنے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا’’اسلامی تحریکوں میں اسامہ بن لادن سے لے کر رجب طیب اردگان جیسے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ تو آخر میڈیا مجھے بن لادن یا ایران کے آیت اللہ خمینی کی طرح پیش کرنے پر کیوں تلا ہوا ہے جب کہ میں بڑی حد تک ترک وزیرِ اعظم اردگان کی طرح ہوں۔‘‘

تیونس میں اس معاملے پر لوگوں کی آرا ملی جلی ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ غنوشی کا نظریہ انتہا پسندی پر مبنی ہے اور اگر انہیں منتخب کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک اور بن علی آ گئے ہیں۔ دوسری طرف النهضة (Ennahdha)پارٹی کے ایک حامی،محمد غربی کہتے ہیں’’نہ تو بن علی نے اور نہ حبیب بو رقیبہ نے اسلام پسندوں کو کوئی چانس دیا۔ اب ہم انہیں ایک بار موقع کیوں نہیں دیتے؟‘‘

مسٹر بن علی نے النهضة (Ennahdha) کو اسلامی دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا لیکن بعض اسکالرز کا خیال ہے کہ وہ اعتدال پسند ہیں۔ واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ولید فارس ،النهضة کا موازنہ مصر کی اخوان المسلمین سے یا ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی سے کرتے ہیں’’وہ اپنی شرکت کو بڑھانا چاہتے ہیں تا کہ جو بھی حکومت آئے انہیں اس میں شامل کر لیا جائے ۔ لیکن اصل چیلنج اس وقت سامنے آئے گا جب وہ حکومت کے اندر آ جائیں گے۔ کیا وہ کسی مکمل اسلامی حکومت کا مطالبہ کریں گے یا وہ ترکی کی AKP کی طرح رہیں گے؟‘‘

مصر میں زبردست احتجاجوں کے بعد صدر حسنی مبارک کا 30 سالہ دور، اور اخوان المسلمین سمیت حکومت کی مخالف تحریکوں کے خلاف ان کی کارروائیاں ختم ہو گئیں۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جان ایسپوزیٹو کہتے ہیں’’مصر میں اخوان المسلمین سادات کے دور کے بعد سے اب تک گذشتہ چالیس برسوں سے ایک سماجی اورسیاسی تحریک کے طور پر کام کرتی رہی ہے اور اس نے اکثر حکومت سے بہتر انداز سے سماجی خدمات فراہم کی ہیں۔ وہ ایک ظالمانہ حکومت کے تحت کام کرتی رہی ہے۔‘‘

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیتھن براؤن کہتے ہیں کہ اخوان المسلمین نے کئی انتہا پسند تحریکوں کو جنم دیا ہے، لیکن وہ موجودہ معاشرے کو مکمل طور سے درہم برہم کرنا نہیں چاہتی۔ اخوان معاشرے کو بتدریج اسلامی رنگ میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔

تیونس اور مصر کی طرح ، الجزائر کے لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئے ۔ الجزائرکا اسلامک سالویشن فرنٹ یا F.I.S. جس پر حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے ، الجزائر کو اسلامی جمہوریت بنانا چاہتا ہے۔ 1990 کے انتخابات میں اسے فتح حاصل ہونے والی تھی لیکن فوجی حکومت نے انتخاب منسوخ کر دیا جس کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے جان ایسپوزیٹو کہتے ہیں’’F.I.S. کئی بار انتخاب جیت چکی تھی اور جمہوری عمل کے ذریعے ، انتخاب جیت رہی تھی۔ اگر آپ اردن، کویت، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے ملکوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو اسلامی پارٹیاں اور امیدوار نظر آئیں گے جو پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں، جو کابینہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں، جو نائب وزیر اعظم بلکہ کسی ملک کے وزیرِ اعظم کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔‘‘

ماضی میں تیونس اور مصر میں اسلامی انتہا پسندی کا اندیشہ کھڑا کیا گیا تا کہ آمرانہ حکومت کا جواز پیش کیا جا سکے ۔ لیکن ایسپوزیٹو اور دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ ہر ملک کے حالات مختلف ہوتے ہیں ۔ مذہب سیاست میں تعمیر ی کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ایجنڈا انتہا پسندی پر مبنی ہو۔

XS
SM
MD
LG