صدر بائیڈن کا یرغمالوں کی واپسی اور جنگ بندی معاہدے کی کوششیں جاری رکھنے کا عزم
امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس نے اسرائیل پر حملے کو ایک سال مکمل ہونے پر اپنے بیان میں فلسطینی عسکری تنظیم حماس کی مذمت کی ہے جب کہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کرانے کے اپنی حکومت کے عزم کو دہرایا ہے۔
صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ سات اکتوبر ہمیں اس دن ہونے والی سفاکیت کی یاد دلاتا ہے بلکہ ان زندگیوں کی یاد دہانی بھی کراتا ہے جن کی خوب صورتی اس دن چھین لی گئی۔
صدر نے کہا کہ ہم روزانہ 100 سے زائد یرغمالوں اور ان کے خاندانوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم باقی یرغمالوں کی محفوظ واپسی تک ہار نہیں مانیں گے۔
جوبائیڈن نے کہا کہ تاریخ حماس کی جانب سے تنازع کے آغاز کی وجہ سے سات اکتوبر کو فلسطینیوں کے لیے سیاہ دن کے طور پر یاد رکھے گی۔
نائب صدر کاملا ہیرس نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کو درپیش کربناک حالات ختم کرنے کے لیے جنگ بندی اور یرغمالوں کی واپسی کا معاہدہ وقت کی ضرورت ہے۔
کاملا ہیرس نے مزید کہا:’’میں ہمیشہ فلسطینی عوام کی توقیر، آزادی، سیکیورٹی اور خود ارادیت کے حقوق کی خاطر جدوجہد کرتی رہوں گی۔‘‘
اسرائیل نے کتنے یرغمالی رہا کرا لیے، کتنے اب بھی قید؟
حماس نے ایک برس قبل جب اسرائیل پر حملہ کیا تو اس کے جنگجو 251 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔ اس جنگ کو ایک سال گزرنے کے بعد اب بھی 63 افراد حماس کی قید میں ہیں۔
یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 117 افراد رہا ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین، بچے اور غیر ملکی شامل ہیں۔
اسرائیل سمجھتا ہے کہ 63 یرغمالی اب بھی زندہ ہیں اور غزہ میں حماس کی قید میں ہیں۔ ان 63 میں سے 56 اسرائیلی شہری ہیں لیکن ان میں سے کچھ دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھ تھائی اور ایک نیپالی شہری بھی یرغمالوں میں شامل ہیں۔
ان 63 یرغمالوں میں 51 مرد، 10 خواتین اور دو بچے ہیں۔ ان افراد میں 11 فوجی بھی ہیں۔
اسرائیلی فوج اور یرغمالوں کے اہلِ خانہ کی تنظیم 71 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر چکے ہیں جن میں سے 34 کی لاشیں غزہ میں ہی موجود ہیں۔
اسرائیل کو غزہ میں ’نسل کشی‘ کی قیمت چکانا ہوگی: ایردوان
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں ’نسل کشی‘ کی قیمت چکانا ہوگی۔
پیر کو غزہ جنگ کا ایک برس مکمل ہونے پر ایردوان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بیان جاری کیا۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل کو جلد یا بدیر اس نسل کشی کی قیمت چکانا ہوگی جو وہ ایک سال سے کر رہا ہے اور اب بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
صدر زرداری کی زیرِ صدارت غزہ پر آل پارٹیز کانفرنس، نواز شریف سمیت دیگر رہنما شریک
صدرِ پاکستان آصف زرداری کی زیرِ صدارت غزہ کی صورتِ حال پر بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایوانِ صدر میں ہونے والی کانفرنس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جماعتِ اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن سمیت دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا کوئی رہنما اے پی سی میں شریک نہیں ہے۔
صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر فورم پر اُٹھاتے رہیں گے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پوری پاکستانی قوم چاہتی ہے کہ غزہ کی صورتِ حال پر کوئی عملی اقدام کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو نظرانداز کرنے کے جرم میں پاکستان بھی شامل ہے۔ محض اعلامیے جاری کرنے سے حق ادا نہیں ہوتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا، لہذٰا ہماری جماعت دو ریاستی حل کی بھی مخالف ہے۔