رسائی کے لنکس

میڈیا پابند ہے یا مادر پدر آزاد؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی نعیم الحق نے کہا ہے کہ میڈیا سنسنی خیزی سے گریز اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرے تو مشکلات ہی پیدا نہ ہوں۔

انہوں نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو واشنگٹن کے دورے کے دوران میڈیا پر بظاہر غیر اعلانیہ پابندیوں کے پس منظر میں مختلف فورمز پر سوالات کا سامنا ہے، جب کہ پاکستان میں حزب اختلاف کا اتحاد اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔

منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے نعیم الحق نے کہا کہ ’’وقت آ گیا ہے کہ صحافی خود ایک ضابطہ اخلاق بنائیں۔ ہم اس کو مشاورت کے بعد قانون سازی کا حصہ بنا دیں گے‘‘۔

نعیم الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں میڈیا جو کچھ کر رہا ہے اس پر کوئی خوش نہیں ہے۔ سب سے زیادہ تنقید، ان کے بقول، وزیر اعظم عمران خان پر ہوتی ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کے ریڈیو پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تنقید پر اعتراض نہیں۔ اگر خبر میرے خلاف ہے تو اس میں میرا مؤقف بھی تو شامل کیا جائے۔

اس سوال پر کہ تحریک انصاف کے دھرنے کی براہ راست کوریج تو مہینوں جاری رہی۔ آج بھی عوامی جلسے براہ راست دکھائے جاتے ہیں۔ تو حزب اختلاف کی رہنما مریم نواز کا جلسہ کیوں ٹیلی وژن پر نہیں دکھایا جاتا؟ بلاول بھٹو زرداری کے جلسے کیوں نہں دکھائے جاتے؟ اس پر معاون خصوصی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو ٹی وی پر نہ دکھانے کی ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’میرے پاس مریم بی بی کے فیصل آباد والے جلسے کی کوریج نہ ہونے کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ لیکن، میں نے کچھ کلپس تو دیکھے تھے۔ ان کو تو ویسے خاصی کوریج ملتی ہے، بالخصوص پچھلے چھ سات ماہ سے۔‘‘

نعیم الحق کا کہنا تھا کہ ہم میڈیا کے ضابطہ اخلاق کے حق میں ہیں۔ یہ ضابطے خود صحافی اپنے لیے بنا لیں۔ ہم سول سوسائیٹی اور پارلیمنٹیرینز کے ساتھ مشاورت کے بعد قانون سازی بھی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے دورے سے واپس آ جائیں تو ضابطہ اخلاق پر میڈیا اداروں، صحافیوں، سول سوسائیٹی اور پارلیمنٹ کی سطح پر بات آگے بڑھا کر قانون سازی چاہیں گے۔

اس سے قبل، واشنگٹن کے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان کو پاکستان میں میڈیا پر بظاہر غیر اعلانیہ پابندیوں کے پس منظر میں نہ صرف وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران سوال کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ منگل کو تھنک ٹینک ’یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ سے خطاب میں بھی یہ سوال ان کے سامنے آیا۔

دونوں موقعوں پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں میڈیا پر پابندی نہیں بلکہ یہاں ضرورت سے زیادہ آزادی ہے‘‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستانی میڈیا جو کچھ کہہ جاتا ہے برطانیہ اور امریکہ میں اس کا تصور بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’نہ صرف ذاتی زندگی پر حملے اور من گھڑت قیاس آرائیاں ہوتی ہیں، بلکہ معیشت کے بارے میں بھی جو کچھ کہا جاتا ہے اس سے ملکی کرنسی اور مارکیٹ متاثر ہوتی ہے‘‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ خود آزاد میڈیا کے ’بینیفشری‘ ہیں۔ جب میڈیا مہم کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے، وہ خود ٹی وی پر جا کر پروگراموں میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تھے۔ اس لیے، وہ میڈیا کی آزادی کے مخالف کیسے ہو سکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پچھلے ادوار میں رپورٹروں کو زد و کوب کیا گیا۔ ان کو اٹھوایا گیا۔ لیکن، تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہمھیں اگر میڈیا سے شکایات ہوں تو ہم پابندیوں کے بجائے میڈیا واچ گروپوں اور متعلقہ چینلز پر جاتے ہیں۔

جس دن عمران خان کا واشنگٹن میں اپنے حامیوں سے جلسہ براہ راست دکھایا جا رہا تھا، اسی دن مسلم لیگ نواز کی راہنما مریم نواز کے فیصل آباد میں بظاہر ایک بڑے جلسے کو سرکاری تو کیا نجی ٹی وی چینلز نے بھی نہیں دکھایا؛ جس پر سوشل میڈیا پر حکومت پر کافی تنقید ہوتی رہی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ردعمل میں کہا کہ میڈیا پر ایسی پابندیاں تو فوجی ادوار میں بھی نہیں دیکھی ہیں۔

پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر اور ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان ظفر ہلالی نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا مکمل آزاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’میں دس برسوں سے پروگرام کر رہا ہوں۔ آج تک مجھ پر کبھی حکومت سے، نہ ٹی وی مالکان سے اور نہ ہی کسی اور ادارے سے کوئی ڈکٹیشن یا ایجنڈا مسلط کیا گیا۔‘‘

ایک اور ٹی وی میزبان اور صحافت کے استاد، رضوان رضی، جنہیں خود کچھ ماہ قبل گرفتاری کا بھی سامنا کرنا پڑا، وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ میڈیا اس انداز سے تو ضرور آزاد ہے کہ ایک شخص باقی سب کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے لیکن حکومت کے بیانیہ کے خلاف بیانیہ آ جائے تو یہ آزادی سکڑ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے وزرا اگر خود قیاس آرائیاں کریں تو ان کو رپورٹ کرنا یا ان پر بات کرنا میڈیا کے لیے غلط کیسے ہو سکتا ہے؟

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG