شام: باغی گروپ کے محمد بشیر شام کے عبوری وزیراعظم مقرر
شام کے باغیوں نے، جنہوں نے منگل کے روز طویل عرصے سے مضبوط حکمران بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا تھا،یکم مارچ تک ملک چلانے کے لیے ایک عبوری سربراہ حکومت مقرر کر دیا ہے۔
دمشق میں باغی رہنماؤں اور اسد کی حکومت کے معزول عہدیداروں کی کابینہ کے اجلاس کے بعد، محمد البشیر نے، جنہیں شام کے بیشتر علاقوں میں بہت کم جانا جاتا ہے اور جو پہلے باغیوں کے زیر کنٹرول شمال مغرب کے ایک چھوٹے سے علاقے میں انتظامیہ چلاتے تھے، کہا ہے کہ انہیں عبوری حکومت کی قیادت کے لیے چنا گیا ہے۔
بشیر نے کہا، "یہ اجلاس حکومت کی نگہبانی کے لیے فائلوں اور اداروں کی منتقلی کے سلسلے میں تھا۔"
وہ دو جھنڈوں کے سامنے کھڑے ہوئےتھے۔ پوری خانہ جنگی کے دوران اسد کے مخالفین کی طرف سے لہرایا جانے والا سبز، سیاہ اور سفید جھنڈا، اور شام میں روایتی طور پر سنی اسلام پسند جنگجووں کی جانب سے لہرایا جانے والا سیاہ تحریر میں اسلامی حلف پر مبنی ایک سفید پرچم۔
شام: بدنام زمانہ’صيدنايا‘جیل میں غمزدہ خاندان اپنے لاپتہ عزیزوں کی مایوس کن تلاش میں
شام میں خاندانوں نے پیر کے روز شام کی ممنوعہ’ صيدنايا جیل ‘کی غلیظ کوٹھریوں کو باغیوں کی طرف سے کھولے جانے کے بعد طویل
عرصے سے نظربند رشتہ داروں کی کسی بھی نشانی کی تلاش کے لئے جیل کو گھیر لیا، تاہم اب لاپتہ پیاروں کو تلاش کرنے کی امید ختم ہونے لگی ہے۔
اتوار کو صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد ہزاروں قیدی انکے اس ظالمانہ نظربندی کے نظام سے باہر نکل آئے، جن میں سے کچھ کے بارے میں خیال تھا کہ انھیں برسوں پہلے پھانسی دی گئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے دیگر کی زندگی ے بارے میں بھی امید پیدا ہوئی۔
بہت سےخاندان اب بھی بھول بھلیوں جیسی عمارت کی اندھیری راہداریوں اور کال کوٹھریوں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ جن کا جرم احتجاج میں شرکت، حکام کی توہین یا محض عدم اطمینان کا اظہار تھا۔
احمد نجار اپنے بھائی کے دو بچوں کو ڈھونڈنے کی امید میں حلب سے دمشق آئے تھے جنہیں اسد کی سکیورٹی فورسز نے 2012 میں پکڑ لیا تھا۔
انہوں نے کہا ، " ہم تلاش کر رہے ہیں۔ یہ ایک زیر زمین جیل ہے،" ۔
اتوار کے روز افواہیں پھیل گئیں کہ مزید ہزاروں قیدی ابھی بھی زیر زمین کوٹھریوں میں قید ہیں جن تک رسائی نہیں ہو سکی۔
وائٹ ہیلمٹس ریسکیو آرگنائزیشن نے، جس نے برسوں تک فضائی حملوں کے بعد گرتی ہوئی عمارتوں کو کھود کر لوگوں کی تلاش کی ہے، اس کے لیےایک ٹیم کو تعینات کیا۔
امدادی کارکنوں میں سے ایک نے بتایا کہ "ان کے پاس شامی فوج کے ایک منحرف افسر کا نقشہ تھا ہم نے ایک دیوار کو توڑ دیا اور کچھ نہیں ملا"۔ "انہوں نے ایک دوسرا توڑا اور وہاں ایک دروازہ ملا۔"
لیکن پیر کی دوپہر تک مزید قیدیوں کا کوئی نشان نہیں تھا۔
شام کے ویڈیوز میں کچھ ایسے قیدی سامنے آئے ہیں جو محض ہڈیوں کا ڈھانچہ ہیں اور جن کا سر منڈا ہواہے۔ یہ قیدی اپنے نام بتانے یا یہ بتانے کے قابل نہیں کہ وہ کہاں سے ہیں۔ رائٹرز ان سب ویڈیوز کی تصدیق نہیں کرسکا لیکن بڑے پیمانے پر قیدیوں کی رہائی متنازعہ نہیں ہے۔
قید تنہائی کی کوٹھریوں کے اندر کنکریٹ کے فرش پر پانی اور کیچڑ موجود تھا۔ کھانے کے لیے دھات کا ایک پیالہ تھا۔ اور فضلہ چاروں طرف پڑا ہوا تھا۔
حقوق گروپوں نے شام کی جیلوں میں بڑے پیمانے پر پھانسیوں کی اطلاع دی ہے، اور امریکہ نے 2017 میں کہا تھا کہ اس نے پھانسی دی جانے والے قیدیوں کے لیے صیدنایا میں ایک نئے قبرستان کی نشاندہی کی ہے۔ اس تشدد کو بڑے پیمانے پر دستاویزی شکل دی گئی ہے۔
رائٹرز کی اطلاعات پر مبنی رپورٹ۔
گولان پہاڑیوں کے بفرزون میں اسرائیلی فوج کا قبضہ قابلِ مذمت ہے: مصر
مصر نے اسرائیلی فورسز کے گولان کی پہاڑیوں کے بفرزون میں داخلے اور کئی علاقے تحویل میں لینے کی مذمت کی ہے۔
وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شام میں پیدا ہونے والے طاقت کے خلاف کا فائدہ اٹھاتےہوئے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
مصر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ شام میں اس کے بقول اسرائیل کی جارحیت کا نوٹس لے۔
گولان پہاڑیوں میں 1974 کی جنگ بندی معاہدے کے بعد غیر فوجی علاقہ یا بفر زون قائم کیا گیا تھا۔
چار ہزار سے زائد شامی فوجی عراق پہنچنے کی اطلاعات
بشار الاسد حکومت ختم ہونے کے بعد پسپا ہونے والی شامی فوج کے ہزاروں اہل کار پڑوسی ملک عراق چلے گئے ہیں۔
عراق میں ایک ملیشیا کے عہدے دار نے پیر کو بتایا ہے کہ چار ہزار سے زائد شامی فوجی شام کی سرحد عبور کرکے عراق میں داخل ہوئے ہیں۔
عراق میں انبار ٹرائبل موبلائزیشن فورسز کے ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ شامی فوجیوں نے اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر ساز و سامان حوالے کردیا ہے اور انہیں ایک کیمپ میں ٹھہرایا جائے گا۔
عہدے دار نے اس کیمپ کے محلِ وقوع کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
ایک اور عسکری عہدے دار نے بتایا ہے کہ شامی صوبے حسکہ کے گورنر بھی اتوار کی شب اپنے سیکیورٹی قافلے کے ساتھ قائم نامی سرحدی کراسنگ سے عراق میں داخل ہوئے ہیں۔