قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ ووٹ کیسے پورے ہوئے؟
قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار تھی۔
حکمران اتحاد کے پاس ایوان میں 213 ارکان کی حمایت یا ووٹ موجود تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوشش سے جمعیت علماء اسلام (ف) کو اس ترمیم کے حق میں راضی کیا گیا۔ جے یو آئی (ف) اپوزیشن کی جماعت ہے۔
جے یو آئی کے سینیٹرز نے سینیٹ میں بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر حکومت کی مشکل آسان کی تھی جب کہ قومی اسمبلی میں بھی اس کے آٹھ ارکان نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیے۔
جے یو آئی کے ان آٹھ ارکان کی حمایت کے بعد بھی حکومت کو چار ووٹوں کی کمی کا سامنا تھا۔
اس موقع پر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت سے قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے والے چار ارکان نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالااور یوں حکومت کو درکار تعداد سے ایک زائد ووٹوں کے ساتھ 225 ووٹ مل گئے اور آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہوئی۔
قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم کی تمام شقیں دو تہائی اکثریت سے منظور
پاکستان کی قومی اسمبلی نے 26ویں آئینی ترمیم کی تمام شقیں دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی ہیں۔
آئینی ترمیم کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے ہیں۔
ترمیم کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں اپوزیشن نے حصہ نہیں لیا اور قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی سے واک آوٹ کیا۔
سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور
پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ سے اتوار کی شب آئین میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے رائے شماری کے نتائج کا اعلان کیا جس کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کے حق میں 65 سینیٹرز نے ووٹ دیا اور چار نے اس کی مخالفت کی۔
ترمیم کے حق میں حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹیْ نے ووٹ دیا ہے۔ جب کہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام(ف) نے بھی بل کی حمایت کی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے دو سینیٹرز اورمسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا نے بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
اپوزیشن جماعتوں پاکستان تحریکِ انصاف، سنی اتحاد کونسل اور مجلسِ وحدت مسلمین نے ترمیمی بل پر کی شق وار منظوری کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
سینیٹ کے بعد آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
ایوان سے منظور 26ویں آئینی ترمیم میں کیا کیا ہے؟
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم میں 22 ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئی ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق عدلیہ سے ہے۔
آئینی ترمیم کے تحت اب چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ بلکہ اعلیٰ عدالت کے سربراہ کا تقرر ایک کمیٹی کرے گی۔
یہ کمیٹی بھی سینئر ترین تین ججوں میں سے کسی ایک جج کو چیف جسٹس کے تقرر کی تجویز دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیرِ اعظم صدر کو ارسال کریں گے۔ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔
چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پہلی مرتبہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے تین دن قبل نام بھجوایا جائے گا۔ بعد ازاں چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی 14 روز قبل نام بھجوائے گی۔
پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ اس کمیٹی میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی جب کہ چار ارکان سینیٹ سے ہوں گے۔
ایوان سے منظور ہونے والی آئینی ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی۔ چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی۔