پاکستان کا ایران پر اسرائیلی حملوں پر اظہارِ مذمت
پاکستان نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
ترجمان وزاتِ خارجہ کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کی کارروائیاں امن اور استحکام کے راستے کو نقصان پہنچاتی ہیں اور اس سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار خطے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور خطے میں اسرائیل کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے خاتمے کے لیے فوی اقدامات کرے۔
ایران کے فوجی اہداف پر نپے تلے حملے کیے ہیں: اسرائیلی فوج
اسرائیل نے ہفتے کی صبح ایران میں فوجی اہداف پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیل ان حملوں کو یکم اکتوبر بیلسٹک میزائل حملوں کے ’نپے تلے‘ جواب کے طور پر بیان کر رہا ہے۔ایران میں ان حملوں کے سبب نقصان سے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
اسرائیل نے تاحال ان حملوں سے متعلق مزید معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ایران اور خطے میں اس کی پراکسیز سات اکتوبر کے بعد مسلسل اسرائیل پر سات محاذوں سے حملے کرتی آئی ہیں۔ بشمول اس حملے کے جو ایرانی سرزمین سے کیا گیا۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی خودمختار ملک کی طرح اسرائیل کو بھی جواب دینے کا حق حاصل ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطاق ایران کے دارالحکومت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ وہاں کا سرکاری میڈیا بھی ابتدائی طور پر تسلیم کر رہا ہے کہ شہر کے گرد ایر ڈیفنس سسٹم سے کچھ ساؤنڈز سنائی دی ہیں۔
تہران کے ایک شہری نے اے پی کو بتایا ہے کہ کم از کم سات دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں جس نے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ شہری نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بات خبر رساں ادارے کو بتائی ہے۔
کیا یکم اکتوبر کو ایران کا اسرائیل پر حملہ اسٹرٹیجک نہیں،ٹیکٹیکل اقدام تھا؟
- By علی عمران
ایران کے اسرائیل پر دو سو کے قریب میزائل حملوں اور تل ابیب کی جانب سے تہران کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیوں کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اطراف سے جاری عسکری اقدامات نے مشرق وسطی میں جنگ کے خطرات کو اچانک کئی درجے بڑھا دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق صورتحال نے امریکی کردار کو بھی کئی حوالوں سے نمایاں کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ کشیدگی کے وسیع تر جنگ میں تبدیل ہونے پر دو بڑے عوامل اثر انداز ہوں گے۔ ایک یہ کہ ایران اپنی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں کو پہنچنے والے نقصان کے وقت کیا آپشنز استعمال کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کہاں تک اس جنگ کو پھیلانے کے لیے تیار ہیں؟
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر اور بین الاقوامی تعلقات کے نائب صدر پال سیلم کہتے ہیں کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت نے خطے میں زلزلے کا کام کیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد تہران اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔
ان پر خطر حالات میں ایران کے آپشنز پر سیلم کہتے ہیں کہ ایران کی ایک راہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے، اسرائیل کے حملے کی شدت میں کمی کرنے، اسے سست کرنے یا روکنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔
اس طرح ایران ایک مؤثر طریقے سے برسوں کا وقت خرید سکتا ہے۔
مزید پڑھیے
بلنکن: غزہ جنگ بندی کے بغیر وطن واپسی، اب توجہ کس پر مرکوز ہے؟
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کے روز مشرق وسطیٰ کی شٹل ڈپلومیسی کا گیارھواں دور غزہ میں کسی جنگ بندی کے حصول کیے بغیر ختم کیا۔ لیکن مسلسل مایوسی کے بعد اس بار بلنکن ایک نئے طریقہ کار کی کوشش کررہے ہیں جس کا آغازیہ طے کرنا ہے کہ جنگ کے بعد کیا ہوگا؟
اگست میں جب بلنکن نے آخری بار اسرائیل کا دورہ کیا تھا، تو کھلے عام پر کہا تھا کہ یہ امریکہ کے تجویز کردہ اس معاہدے کے لیے "آخری موقع" ہو سکتا ہے جو ایک عارضی جنگ بندی اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں پکڑے گئے یرغمالوں کو آزاد کرنے کی پیشکش کرتاہے۔
بلنکن نے کوشش جاری رکھی ہے اور جمعرات کو کلیدی ثالث قطر کے ساتھ اعلان کیا کہ مذاکرات کار جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے۔
قطر میں، بلنکن نے کہا کہ وہ جنگ کے" بعد کےلیے کوئی منصوبہ تیار کرنےکے خواہاں ہیں تاکہ اسرائیل غزہ سے واپس جا سکے، تاکہ حماس اپنی تشکیل نو نہ کر سکے، اور تاکہ فلسطینی عوام اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کر سکیں اور کسی فلسطینی قیادت کے تحت اپنے مستقبل کی تعمیر نو کر سکیں"۔
اس پورے سفر کے دوران، جو جمعے کو لندن میں عرب وزرا کے ساتھ ملاقاتوں پر ختم ہوا، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ان ٹھوس تجاویز پر بات کی "جو ہم غزہ میں سیکورٹی کےلیے، گورننس کے لئے اور تعمیر نو کے لیے تشکیل دیتے رہے ہیں۔ "