رسائی کے لنکس

لاہور ہائی کورٹ نے حکام کو عمار جان کی نظر بندی سے روک دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی ایک عدالت نے سماجی کارکن عمار علی جان کو نظر بند کرنے سے روک دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے منگل کو عمار علی جان کی 30 دن کے لیے نظر بندی اور گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ اس موقع پر اُن کی وکیل حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر لاہور نے عمار کی نظری بندی کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔

جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم علی خان نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کیا کرتا ہے؟ کیا ان کے خلاف مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے؟

سرکاری وکیل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ملک عبدالعزیز نے عدالت کو بتایا کہ عمار جان کے خلاف دو مقدمات درج ہیں۔ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عمار جان پروفیسر ہیں جنہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور وہ پہلے ہی دو مقدمات میں نامزد ہیں اور ضمانت پر ہیں۔

حنا جیلانی نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈپٹی کمشنر کا نظر بندی کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے۔

فریقین کا مؤقف سننے کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کسی شخص کو محض مقدمہ درج ہونے کی بنیاد پر نظر بند نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس قاسم علی نے ریمارکس دیے کہ "اس طرح نظر بند کر دیا جائے تو پاکستان میں جو طاقت ور لوگ ہیں وہ اپنے مخالفین کو کہیں نکلنے ہی نہیں دیں گے۔"

عدالت نے پنجاب حکومت سمیت دیگر فریقین سے 17 دسمبر کو جواب طلب کر لیا ہے۔

کیس کی سماعت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمار علی جان نے کہا کہ وہ طلبہ کے حقوق، بہتر تعلیم اور آئین کے مطابق حقوق کی بات کر رہے تھے جس پر ان کے خلاف نظر بندی کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔

عمار جان کون ہیں؟

کیمبرج یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹر عمار علی جان پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ عمرانیات میں بطور استاد مقرر تھے۔ اُنہیں اپریل 2018 میں جامعہ پنجاب کی انتظامیہ نے 'معاہدے کی شرائط' پوری نہ ہونے پر نوکری سے نکال دیا تھا اور جامعہ کی حدود میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔

عمار علی جان فارمین کرسچن کالج یونیوسٹی لاہور اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ درس و تدریس سے منسلک رہے ہیں۔

عمار کو فروری 2019 میں اُن کی رہائش گاہ سے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن ارمان لونی کی ہلاکت پر ہونے والے مظاہرے میں شرکت کرنے پر بھی گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ جہاں ان کی ضمانت منظور کر لی گئی تھی

عمار علی جان نے 27 نومبر کو لاہور میں طلبہ کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی تھی جس کے بعد ڈپٹی کمشنر لاہور نے اُن کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے۔

احکامات میں کہا گیا تھا کہ عمار علی جان کو نقصِ امن (سولہ ایم پی او) کے تحت 30 روز کے لیے نظر بند کیا جائے۔

عمار علی جان معاشرے کے لیے کیسے خطرہ ہو سکتے ہیں؟

اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے ڈپٹی کمشنر لاہور مدثر ریاض سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہیں تھے۔

اِس سوال کے جواب میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ملک عبدالعزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عمار علی جان سے متعلق نظر بندی کے احکامات قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ پر جاری کیے گئے تھے۔

اُن کے بقول عمار جان کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہیں۔ ایک منظور پشین کی حمایت کرنے پر اور دوسری حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ منظور پشین کے لیے یہ سڑک بلاک کرتے ہیں۔ حکومت اور فورسز کے خلاف غلط قسم کے نعرے لگاتے ہیں۔ اِن کے خلاف ڈی آئی جی کی رپورٹ بھی ہے کہ یہ امن کے لیے خطرہ ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کی رائے میں پاکستان کی سیاست میں جب مذہب کا استعمال شروع ہوا تو سوشلزم، کیمونزم اور ترقی پسندوں کو کافر قرار دیا گیا جس کی وجہ سے ہمیشہ زیرِ عتاب وہی لوگ آتے ہیں جو اس نظریے کی بات کرتے ہیں۔

اُن کے بقول اگر کوئی ترقی پسند خیالات کے حامی پر اعتراض اٹھا دے تو حکومت بھی دفاعی پوزیشن میں چلی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG