بھارت کے نوجوان اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی اچانک موت کے بعد بھارتی فلم انڈسٹری میں اقربا پروری کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ کوئی کپور خاندان پر انگلیاں اٹھا رہا ہے تو کسی کو بھٹ فیملی سے مسئلہ ہے۔
بھارت میں اب کئی افراد نے ایسے فن کاروں کی فلموں کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کر دیا ہے جو کسی فلمی شخصیت کی اولادیں ہیں۔
بالی وڈ میں اداکاروں کی جانب سے ذاتی پسند و ناپسند اور اقربا پروری کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں۔ بھارت میں جتنا بڑا اداکار ہو اس کی اولاد کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ روشن ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
پاکستان میں نامور اداکاروں کی اولادوں کو یا تو فلم انڈسٹری میں مبینہ طور پر آنے نہیں دیا جاتا یا پھر وہ خود اس فیلڈ میں آنا نہیں چاہتے اور جو آتے بھی ہیں تو ان میں سے اب تک چند ایک ہی کامیابی سے ہم کنار ہوئے ہیں۔
چند ایسے نامور اداکاروں کی اولادوں کا ذکر جنہوں نے پاکستان کی فلم یا ڈرامہ انڈسٹری میں اپنا سکہ جمانے کی بھرپور کوشش کی لیکن والد کی طرح نام نہ کما سکے۔
1۔ عادل مراد
وحید مراد کا شمار پاکستان ہی نہیں بلکہ برِّصغیر کے اُن اداکاروں میں ہوتا ہے جن کے اسٹائلز کو لوگوں نے نہ صرف نقل کیا بلکہ ان کے اسٹائلز کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔
وحید مراد کے اکلوتے بیٹے عادل مراد نے والد کی زندگی میں ہی فلم 'ہیرو' میں ان کے بچپن کا کردار ادا کر کے لوگوں سے خوب داد سمیٹی لیکن وحید مراد کے اچانک انتقال کے بعد عادل مراد امریکہ منتقل ہو گئے۔
عادل نے 90 کی دہائی میں فلم 'راجہ صاحب' میں بطور ہیرو کام کیا اور شائقین نے ان کی اداکاری کو پسند بھی کیا۔ فلم کے گانے تو مقبول ہوئے ہی ساتھ ہی ساتھ وحید مراد کی ہیروئن نشو کی بیٹی صاحبہ نے اس فلم میں عادل کی ہیروئن کا کردار ادا کر کے ایک طرح سے تاریخ دہرائی۔
جس وقت فلم 'راجا صاحب' ریلیز ہوئی اس وقت پاکستانی فلمیں کم بیک کر رہی تھیں اور اچھی فلموں کو سب پسند کر رہے تھے۔ لیکن یہ فلم بالی وڈ کی مقبول فلم 'دل' کا چربہ تھی اور چربہ فلم کے ساتھ کم بیک کرنا ہی عادل کو مہنگا پڑ گیا۔
عادل صورت، شکل اور اداکاری میں وحید مراد جیسے تو نہیں تھے لیکن ان سے کم بھی نہیں تھے۔ اگر وہ اتنے بڑے اداکار کے بیٹے نہ ہوتے تو یقیناً فلم انڈسٹری میں آج ان کا اپنا ایک الگ مقام ہوتا۔
سید نور کی فلم 'چین آئے نا' میں بھی انہوں نے اداکاری کی لیکن فلم باکس آفس پر وہ کمال نہ دکھا سکی جس کی امید کی جا رہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عادل مراد نے کہا کہ اُن کے فلمی کیریئر کی پہلی فلم سے آخری تک اُنہیں ہمیشہ وحید مراد کے جانشین کے طور پر دیکھا گیا، ایک اداکار کے طور پر نہیں۔
اُن کے بقول، "میں نے دو فلموں کے علاوہ ٹی وی اور تھیٹر میں بھی اداکاری کی لیکن وحید مراد کے چاہنے والوں کی امیدوں پر پورا نہ اترنا میرے کریئر کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔"
عادل مراد ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں لیکن گزشتہ سال تک انہوں نے کئی کامیاب پراجیکٹس پروڈیوز کیے جن میں 'بری عورت' اور 'کوڈ نیم ریڈ' شامل ہیں۔
'بری عورت' میں انہوں نے اداکاری بھی کی تھی جب کہ 'کوڈ نیم ریڈ' سی ایس آئی کی طرز پر بنی ایک ایسی سیریز تھی جس نے پاکستان میں ٹیلی ویژن کو ایک نئے دور میں لے جانے کی کوشش کی۔
2۔ غالب کمال
پاکستان فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے نامور اداکار سید کمال کے صاحبزادے غالب کمال نے 90 کی دہائی میں 'ایکٹنگ چیلنج' نامی پروگرام سے کافی شہرت حاصل کی جس کے وہ میزبان تھے۔
سن 1996 میں انہوں نے ایک فلم 'مہندی' میں بھی کام کیا جس میں ان کے والد سید کمال نے بھی اداکاری کی تھی لیکن باپ بیٹے کی موجودگی اور اداکارہ صاحبہ پر فلمائے گئے فریحہ پرویز کے مشہور گانے 'پتنگ باز سجنا' کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر 'ناکام ہوئی اور اس کے ساتھ ہی غالب کمال کا فلمی کریئر بھی شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا۔
حالیہ برسوں میں انہوں نے فلم 'ایکٹر ان لا' اور 'لوڈ ویڈنگ' میں چھوٹے چھوٹے رول کیے لیکن ایک بڑے اداکار کا بیٹا ہونے کے باوجود وہ فلموں میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے جس کی ان سے توقع تھی۔
ویسے تو اداکار سید کمال وحید مراد سے بھی پہلے فلم انڈسٹری میں آئے تھے اور 60 کی دہائی میں انہوں نے کئی کامیاب فلموں میں کام کیا اور فلم سازی بھی کی لیکن 70 کے آخر تک ان کا کرئیر بھی زوال کا شکار ہو گیا تھا۔
نوے کی دہائی میں انہوں نے ٹی وی کا رخ کیا اور ڈرامہ سیریل 'کشکول' سے اپنی کامیاب اننگز کا آغاز کیا لیکن فلم اور ٹی وی میں کامیابی سمیٹنے کے باوجود وہ اپنے بیٹے غالب کمال کی کوئی مدد نہ کر سکے۔
3۔ عامر قریشی
کیا آپ جانتے ہیں کہ سیٹیلائٹ ٹی وی پر پاکستان کی سب سے پہلی نمائندگی کس نے کی تھی؟
یہ کوئی اور نہیں بلکہ اداکار مصطفی قریشی اور گلوکارہ روبینہ قریشی کے بیٹے عامر قریشی تھے جنہوں نے 90 کے آخر میں اسٹار ٹی وی پر 'پوسٹ کارڈ فرام پاکستان' کے نام سے پروگرام کی میزبانی کی تھی۔
عامر قریشی اس سے قبل 'این ٹی ایم' کے مشہور میوزک پروگرام 'وی جے' میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ پروگرام کی میزبانی بھی کر چکے تھے۔
ان سب کامیابیوں کے باوجود ان کے والد مصطفیٰ قریشی نے اپنے بیٹے کو اداکاری کی طرف آنے نہیں دیا بلکہ اُنہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ بھیج دیا۔
انگلینڈ سے وطن واپسی پر عامر قریشی نے پہلے کچھ وقت ایڈورٹائزنگ انڈسٹری میں گزارا جس کے بعد اپنی والدہ کی طرح موسیقی کے شعبے میں قدم رکھا جہاں انہیں کامیابی تو حاصل ہوئی لیکن اتنی نہیں کہ جس کی انہیں امید تھی۔
یہی وہ وقت تھا جب عامر قریشی نے اداکاری میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عامر قریشی کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اداکاری میں آنے کا فیصلہ کیا ان کے والد نے اس کی پرزور مخالفت کی۔
اُن کے بقول، "جب میں نے فلم 'بھائی لوگ' میں اداکاری کی تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ مجھے بھی اداکاری آتی ہے۔"
عامر قریشی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کچھ پروڈیوسرز نے اُنہیں بتایا کہ وہ بہت پہلے اُنہیں کام کی آفر کرنا چاہتے تھے لیکن مصطفیٰ قریشی کے رعب و دبدبے کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
فلم 'بھائی لوگ'، 'سات دن محبت ان' اور 'باجی' عامر کی کامیاب فلمیں ہیں لیکن 'بلائنڈ لو'، 'جنون عشق' اور 'پروجیکٹ غازی' جیسی ناکام فلموں کی وجہ سے ان کے کریئر کو نقصان ہوا ہے۔
ٹی وی پر انہوں نے 'رنگ لاگا' اور 'بابا جانی' جیسے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
اُن کی دو فلمیں عاطف علی کی 'پیچھے تو دیکھو' اور سید نور کی 'باجرے دی راکھی' ان دنوں ڈبنگ مراحل میں ہیں جب کہ کرونا سے پہلے وہ عظیم سجاد کی فلم 'چودھری' کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔
عامر قریشی ان دنوں یوٹیوب پر مختلف فلموں اور ٹی وی شوز کی تھیم میوزک بجا کر ان تمام لوگوں کو حیران کر رہے ہیں جن کو یہ نہیں معلوم کہ عامر قریشی کو اداکاری کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی وراثت میں ملی ہے۔
4۔ فیصل منور ظریف
بڑے اداکار کا بیٹا ہونا اگر پاکستان میں کامیابی کی ضمانت ہوتا تو نامور کامیڈی اداکار منور ظریف کے صاحبزادے فیصل منور ظریف نہ صرف ایک کامیاب اداکار ہوتے بلکہ کئی فلموں میں اداکاری بھی کر رہے ہوتے۔
سن 1993 میں مراکش سے پاکستان آنے والے فیصل منور ظریف نے دو فلموں 'پتر منور ظریف دا ' اور 'پتر جیرے بلیڈ دا' میں کام کیا۔ ان دونوں فلموں میں انہوں نے اپنے مرحوم باپ کی کامیابی کا سہارا لینے کی کوشش کی لیکن دونوں فلمیں باکس آفس پر ناکام ہوئیں۔
اس کے علاوہ ان کی تیسری فلم 'کھوٹے سکے' بھی بری طرح ناکام ہوئی جس کے بعد انہوں نے مراکش واپس جانے کا فیصلہ کیا۔
گزشتہ سال صرف 44 سال کی عمر میں فیصل منور ظریف کا انتقال ہو گیا تھا۔
5۔ حیدر سلطان
نوے کی دہائی میں فلم 'سوداگر' سے اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے حیدر سلطان کے ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان سے سلطان راہی کے مداحوں کی امیدیں تھیں۔
انہوں نے 1989 میں فلمی کریئر کا آغاز تو سندھی فلم 'تین قیدی' سے کیا تھا لیکن ڈبل ورژن اردو پنجابی فلموں کی وجہ سے 90 کے آغاز میں انہوں نے کئی ہٹ فلمیں دیں لیکن جیسے ہی اردو فلموں نے زور پکڑا اور پنجابی سنیما کا زور ٹوٹا تو حیدر سلطان کا کریئر بھی زوال کی طرف بڑھنے لگا۔
سلطان راہی کے اچانک قتل کے بعد مرحوم کے مداحوں نے حیدر سلطان سے امیدیں باندھ لی تھیں کہ باپ کی طرح وہ بھی پنجابی فلموں میں گنڈاسے کا سہارہ لے کر پورے گاؤں کی رکھوالی کریں گے لیکن نہ حیدر سلطان نے ایسا کیا اور نہ ہی ان کا کریئر پروان چڑھ سکا۔
اداکار شان شاہد، سلطان راہی کے متبادل کے طور پر منظر عام پر آئے اور حیدر سلطان نے 2004 میں فلم 'ہم ایک ہیں' کے بعد فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
حیدر نے دو سال قبل پنجابی سنیما میں کم بیک کی کوشش تو کی لیکن سلطان راہی کے بیٹے کے طور پر ملنے والی کامیابی نہ سمیٹ سکے۔
6۔ علی محی الدین
دو ہزار سولہ میں علی محی الدین نے فلم 'سوال سات سو کروڑ ڈالر کا' میں کام کیا جس کے وہ مرکزی ہیرو تھے اور ان کے والد غلام محی الدین فلم کے مرکزی ولن لیکن فلم باکس آفس پر نہ چل سکی۔
خوش شکل، لمبے قد اور اچھی کارکردگی سے لیس علی محی الدین کا کریئر ایک فلم سے آگے نہ بڑھ سکا۔
دوسری جانب ان کے والد غلام محی الدین نے جب 70 کی دہائی میں ڈیبیو کیا تو اس وقت فلموں میں وحید مراد، محمد علی اور ندیم کا راج تھا۔ ایسے میں ان کا انڈسٹری میں جگہ بنانا اُن کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن غلام محی الدین کے بیٹے علی محی الدین کا کریئر اوپر جانے سے پہلے ہی رک گیا۔
7۔ حمزہ فردوس
'او رنگریزا'، 'گگھی' ، 'مجھے تھام لے' اور 'سیرت' سمیت کئی ہٹ ڈراموں میں کام کرنے والے حمزہ فردوس نامور اداکار فردوس جمال کے صاحبزادے ہیں لیکن تین سے چار سال کے عرصے میں اچھا کام کرنے کے باوجود بھی انہوں نے واپس آئرلینڈ جانے کو ترجیح دی جہاں سے وہ آئے تھے۔
حمزہ فردوس انڈسٹری کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر اس وقت آئرلینڈ میں موجود ہیں اور مقامی پروڈیوسرز کے ساتھ مل کچھ پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب وہ آئر لینڈ سے پاکستان آئے تھے تو ان کے والد نے صرف اس وجہ سے ان کی کہیں سفارش نہیں کی کہ اُن کے خیال میں یہ انڈسٹری میں داخل ہونے کا غلط طریقہ ہے۔
ان کے بقول، "میرے والد نے نہ تو خود کبھی کسی سے مدد لی اور نہ ہی کبھی کسی نے ان کی سفارش کی شاید اسی وجہ سے انہوں نے مجھے شو ریل بنا کر مختلف پروڈکشن ہاؤسزجانے کا مشورہ دیا۔"
حمزہ فردوس کے مطابق اگر والد فردوس جمال کے کہنے پر انہیں کسی ڈرامے میں کام مل جاتا تو یہ نہ ان کے لیے اچھا ہوتا اور نہ ہی والد کو اُن پر فخر ہوتا۔