لاہور کے انارکلی بازار میں جمعرات کو ہونے والے دھماکے کا مقدمہ درج کر کے پولیس نے کلوز سرکٹ کیمروں (سی سی ٹی وی) کی مدد سے تین مشتبہ افراد کی نشاندہی کر لی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک تک پہنچنے کے لیے تفتیش کا دائرہ کار دوسرے اضلاع تک بڑھا دیا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھماکے کے مقام اور قریبی علاقے کو عام افراد کے لیے بند کر دیا ہے۔ دھماکے کے بعد سے پولیس نے جائے وقوع کی طرف جانے والے تمام راستوں کو رکاوٹوں کی مدد سے بند کر رکھا ہے. جس مقام پر دھماکہ ہوا تھا وہاں پر پانچ تباہ شدہ موٹرسائیکلیں اور ایک سائیکل موجود ہیں۔
دھماکے کے باعث جائے وقوع اور اطراف کی دکانیں اور بازار بھی بند ہیں جب کہ قریبی بازاروں میں بھی چہل پہل معمول سے قدرے کم ہے۔
محمد طارق، جو لاہور کے انار کلی بازار سے ملحقہ بازار میں اسٹیشنری اور کاغذ کا کام کرتے ہیں، دھماکے کے متاثره افراد میں شامل ہیں۔ وہ دھماکے کے باعث معمولی زخمی بھی ہوئے ہیں البتہ اچانک اِس صورت حال سے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد طارق نے بتایا کہ جمعرات کی دوپہر اُن کی دکان پر معمول کے خریدار موجود تھے کہ اچانک زور دار دھماکے کی آواز آئی جس کے بعد سب لوگ ڈر گئے اور اپنی اپنی جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر دوڑنے لگے۔
گفتگو جاری رکھتے ہوئے محمد طارق نے بتایا کہ جب کچھ ہوش آیا تو اُن کے چہرے اور گردن پر معمولی زخم کے نشان تھے۔ یہ نشان کس چیز سے آئے اُنہیں کچھ معلوم نہیں۔ اُن کے بقول ہوش آنے پر اُنہوں نے دیکھا کہ موٹرسائیکلوں کو آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِسی اثنا میں پولیس، میڈیا والے اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں پہنچنا شروع ہو گئیں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ البتہ لوگ اپنے اپنے موبائل فون سے مناظر کی ویڈیوز بنا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ دھماکہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دھماکے کا اثر اور خوف ابھی تک نہ صرف اُن کے دل ودماغ میں موجود ہے بلکہ آس پاس کے لوگ بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کی دکان بند ہے اور پولیس اُس طرف جانے بھی نہیں دے رہی۔
محمد طارق کی طرح دیگر دکان دار جمعرات کے روز ہونے والے دھماکے کے خوف سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ انار کلی بازار میں ہونے والے دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں۔ جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔
پولیس نے انار کلی دھماکے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں انسپکٹر عابد بیگ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات، قتل، اقدامِ قتل اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے ایکٹ کے تحت دفعات درج کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ تین دہشت گرد بارودی مواد رکھنے کے لیے موٹرسائیکل پر آئے تھے۔ دھماکے کے لیے بال بیرنگ اور دیگر دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ تفتیشی ادارے پلانٹڈ ڈیوائس جائے وقوع تک پہنچانے والے افراد کی نشان دہی میں مصروف ہیں۔
اعلیٰ پولیس حکام کے مطابق دھماکے سے قبل جائے وقوع کی سی سی ٹی وی سے حاصل ہونے والی ویڈیو میں تین مشتبہ افراد کی نشاندہی کی گئی جب کہ میو اسپتال سے دو مشکوک افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
تفتیشی ٹیموں کے مطابق علاقے کی جیوفینسنگ کرکے دھماکے کے وقت ہونے والی مشتبہ کالز کو بھی شارٹ لسٹ کیا جا رہا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے دھماکے کے بعد سے لاہور شہر کے داخلی اور خارخی راستوں پر حفاظتی اقدامات بڑھا دیے گئے ہیں۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق دھماکے کے زخمیوں میں سے 12 افراد کو طبی امداد دے کر فارغ کر دیا گیا تھا جب کہ دیگر زخمی افراد تاحال زیرِ علاج ہیں۔ جمعرات کو لاہور کے علاقے انارکلی بازار میں ہونے والے دھماکے میں تین افراد ہلاک اور 29 زخمی ہوئے تھے۔