پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں کچرا اُٹھانے کی ذمہ دار ترک کمپنیوں کے ساتھ حکومتی معاہدے کے اختتام اور متبادل انتظام نہ ہونے سے شہر میں ان دنوں جابجا کچرے کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔
کچرا اُٹھانے کا معاہدہ 31 دسمبر 2020 کو ختم ہو رہا ہے۔ تاہم اسے قبل ہی حکومتی ادارے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) اور ترک کمپنیوں کے مابین تنازع کے باعث کچرا اُٹھانے کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
لاہور کے کئی اہم علاقوں میں کچرے کے ڈھیر لگنے سے تعفن پھیل رہا ہے۔ جب کہ شہریوں کو آمد و رفت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
'ایل ڈبلیو ایم سی' حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی پر ایک کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ جب کہ ترک کمپنی کا مؤقف ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی 'ایل ڈبلیو ایم سی' نے کی۔
'ایل ڈبلیو ایم سی' نے مبینہ طور پر رواں ماہ 20 دسمبر کی رات ترک کمپنیوں کے دفاتر پر رات کے وقت دھاوا بولا تھا جس میں اُنہوں نے مبینہ طور پر ترکش کمپنیوں کا سامان اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
لاہور شہر کی صفائی اور کچرے کو اٹھانے کے لیے 2012 میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جس کے بعد سے شہر کی صفائی اِس کمپنی کے ذمے تھی۔
اِس سلسلے میں 'ایل ڈبلیو ایم سی' نے لاہور شہر کی صفائی کے لیے 2012 میں دو ترک کمپنیوں 'البراک' اور 'اوزپاک' کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔
معاہدے کے تحت شہر کو صفائی کی غرض سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دونوں کمپنیوں کو مشینری کی خریداری خود کرنا تھی۔ جس کے بعد دونوں کمپنیوں نے شہر میں چھ مختلف جگہوں پر اپنے دفاتر قائم کیے تھے۔
معاہدے کے تحت دونوں ترک کمپنیاں سات سال تک لاہور بھر سے 600 ملین میٹرک ٹن کچرا اٹھانے کی پابند تھیں۔
معاہدے کے تحت ٹھیکے کی میعاد ختم ہونے پر ترک کمپنیاں اپنا سامان اور مشینری جذبہ خیر سگالی کے تحت ایل ڈبلیو ایم سی کو دینے کی پابند ہیں۔
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے مطابق اُنہوں نے شہر میں صفائی ستھرائی کے مسائل کا سبب بننے اور معاہدے کی خلاف ورزی پر دونوں کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں ایل ڈبلیو ایم سی کے سربراہ سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہیں تھے۔
تاہم ایل ڈبلیو ایم سی کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او) عمران علی سلطان نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ٹھیکے دار کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر شمالی لاہور کے رہائشیوں کو مسائل کا سامنا ہے۔
عمران علی سلطان کے مطابق متعدد نوٹسز کے باوجود ترک ٹھیکے دار اپنی تمام مشینری کو لانے میں ناکام رہا اور اب ایل ڈبلیو ایم سی کے پاس قانونی کارروائی کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ایل ڈبلیو ایم سی نے گزشتہ آٹھ برس میں صفائی کی غرض سے کمپنی کو اربوں روپوں کی ادائیگی کی ہے۔ لیکن 'البراک' کمپنی صفائی کی صورتِ حال بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ترک کمپنیوں کی وجہ سے مالی بے ضابطگیاں سامنے آئیں اور نیب کے نوٹسز ملتے رہے ہیں۔ آئے دن ہڑتالیں ہوتی رہی ہیں۔ اِس کے باوجود ترک کمپنیوں کے واجبات ادا کر دیے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی مسئلہ ہے تو آئیں بات کریں بلیک میل نہیں ہوں گے۔"
دوسری جانب ترک کمپنی نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی کو گزشتہ سال مارچ سے ادائیگیاں نہیں کی گئیں۔
'البراک' کی ترجمان نعیمہ سعید کے مطابق اُن کی کمپنی نے معاہدے کی تمام شقوں کے تحت اپنے کام کو بخوبی سرانجام دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نعیمہ سعید نے کہا کہ کچھ ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں 'ایل ڈبلیو ایم سی' نے اُن کی کمپنی کو خطوط لکھے جس کا جواب بھی دیا گیا۔
نعیمہ سعید نے مزید کہا کہ 'ایل ڈبلیو ایم سی' کمپنی کو گزشتہ سال مارچ سے لے کر آج تک مکمل ادائیگیاں نہیں کرسکی۔ وہ جزوی ادائیگیاں وصول کر رہے تھے۔
نعیمہ کا کہنا تھا کہ "ہمارے ساتھ 13 ڈالر فی ٹن کے حساب سے کچرا اُٹھانے کا ٹھیکہ تھا اور یہ معاہدہ 31 دسمبر 2020 تک تھا، لیکن معاہدے سے قبل انہوں نے ہمارے دفاتر پر دھاوا بول دیا اور سامان قبضے میں لے لیا۔"
ترک کمپنیوں نے تنبیہ کی ہے کہ غیر قانونی مطالبات کا سلسلہ نہ روکا گیا تو وہ عالمی عدالت انصاف سے بھی رُجوع کر سکتے ہیں۔
ایل ڈبلیو ایم سی اور ترک کمپنیوں کے تنازع کے باعث لاہور شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ شہری کچرا نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے پریشان ہیں۔
واضح رہے کہ ایل ڈبلیو ایم سی نے رواں ماہ توسیعی معاہدے کے اختتام پر ترک کمپنی 'البراک' اور 'اوزپاک' کو مشینری اور دیگر سامان ایل ڈبلیو ایم سی کو دینے کا نوٹس جاری کیا تھا۔
ایل ڈبلیو ایم سی اور ترک کمپنیوں کی لڑائی عدالت تک بھی جا پہنچی ہے۔ البراک کمپنی کی گاڑیاں اور مشینری قبضے میں لینے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
عدالت نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو 'البراک' کمپنی کی گاڑیاں اور مشینری استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے پنجاب حکومت، ایل ڈبلیو ایم سی سمیت دیگر فریقین کو 29 دسمبر 2020 کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔