شامی مبصرین کا کہنا ہے کہ کرد جنگجوؤں نے ایک بڑے شامی قصبے کا قبضہ داعش سے چھین کر شدت پسند گروپ کے لیے رسد کی فراہمی کے ایک اہم راستے کو منقطع کر دیا ہے۔
برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ کرد جنگجوؤں نے تل ابیض قصبے کے چند ایک چھوٹے حصوں کو چھوڑ کر پورے شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔
امریکہ کی قیادت میں ہونے والی فضائی کارروائیوں کی مدد سے داعش کے جنگجوؤں کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور ان فضائی کارروائیوں نے کرد فورسز کی پیش رفت میں اہم کردار ادا کیا۔
شام اور ترکی کی سرحد پر واقع تل ابیض کا قصبہ اس بڑے سپلائی روٹ کا ایک سرا ہے جو داعش کے رقعہ میں موجود ہیڈ کوارٹر تک جاتا ہے۔ جنگجو اس راستے کو ہتھیاروں اور جنگجوؤں کو شام اسمگل کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
اس کے علاوہ وہ بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت کے لیے بھی اسی راستے کو استعمال کرتے تھے جو ان کے لیے مالی وسائل کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس علاقے میں ہونے والی لڑائی کے باعث ہزاروں کی تعداد میں عام شامی شہریوں کو محفوظ پناہ کے لیے ترکی کی سرحد کے پار منتقل ہونا پڑا۔
ترک حکام کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ ان پناہ گزینوں کی آمد سے پہلےسے ہی ترکی میں موجود پناہ گزینوں کا مسئلہ مزید گمبھیر ہو جا ئے گا جو کرد ملیشیا کے لیے حوصلے کا باعث بنے گا جس کی وجہ سے ترکی کی کرد برادری میں علیحدگی پسندی کے جذبات میں اضافہ ہو گا۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسٹیفاں دی مستیورا شامی حکومت کے اعلیٰ عہدیدارو ں سے ملاقات کے لیے دمشق کا دورہ کررہے ہیں۔ یہ دورہ شام میں خانہ جنگی کے دوران عارضی جنگ بندی کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس دورے کے دوران وہ شامی حکومت کو باور کروائیں گے کہ عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے اور عام شہریوں کے خلاف بیرل بموں جیسے ہتھیاروں کا استعمال روکنا ہو گا۔