رسائی کے لنکس

پنجاب اسمبلی: نکاح نامے میں ختمِ نبوت کا کالم شامل کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب اسمبلی نے نکاح نامے میں ختمِ نبوت کا خانہ ڈالنے کی قرارداد منظور کی ہے۔ قرارداد پاکستان مسلم لیگ (ق) کی رکنِ اسمبلی خدیجہ عمر نے پیش کی تھی جس کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم، قادیانی اور احمدی وغیرہ کا فرق واضح کرنے کے لیے طے نادرا اور پاسپورٹ فارم میں درج حلف نامے کی طرز پر مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت وضع کیے ہوئے قواعد کے قاعدہ نمبر آٹھ اور 10 کے تحت مجوزہ نکاح نامہ فارم میں ختمِ نبوت کے حلف کا کالم شامل کیا جائے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ منظور ہونے والی قرارداد کے فوری طور پر تو شاید کوئی نتائج نہ آئیں البتہ مستقبل قریب میں کوئی بڑا مسئلہ بھی درپیش ہو سکتا ہے۔

مذکورہ قرارداد 26 اکتوبر 2021 کو پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔

قرارداد پیش کرنے پر خدیجہ عمر کہتی ہیں کہ اسے پیش کرنے کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کیوں کہ بہت سے لوگ شکایت کر رہے تھے کہ کئی مرتبہ جب شادیاں ہوتیں ہیں تو دوسرے فریق کا عقیدہ معلوم نہیں ہوتا۔

’شادی کے وقت لوگ عقیدے کو چھپا لیتے ہیں‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کی رکنِ پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر نے کہا کہ شکایات میں یہ لکھا گیا ہے کہ شادی کے وقت لوگ عقیدے کو چھپا لیتے ہیں۔ اُنہیں بچے ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاندان احمدی ہے۔

اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اِس سلسلے میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کے دفتر کو بہت سے شکایات موصول ہوئی ہیں جس کے بعد یہ سوچا گیا کہ نکاح نامہ پر ختم نبوت کا خانہ ہونا چاہیے۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی مسلم لیگ (ق) کی رکنِ پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر اِس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکیں کہ موصول ہونے والی شکایات کی تعداد کتنی تھی۔

'جب ساتھ ہی رہنا ہے تو امن و سلامتی سے کیوں نہ رہیں؟'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:57 0:00

اُن کا کہنا تھا کہ اسپیکر آفس کو بہت بڑی تعداد میں ایسی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ کافی لوگوں نے رابطہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ شادی کے بعد بچوں اور بچیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک فریق ختمِ نبوت پر یقین نہیں رکھتا۔

’شادی سے قبل جانچ پڑتال کی جاتی ہے‘

پاکستان میں احمدی گروپ کے مرکزی رکن عامر محمود سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا سرکاری فارم رہ گیا ہے جس میں ختم نبوت کا خانہ یا کالم نہ ہو۔

اُنہوں نے دعوٰی کیا کہ ایسا حلف نامہ پاکستان میں کچھ اسکولوں کے داخلہ فارم پر بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشرے میں جب بھی شادی ہوتی ہے تو عام طور پر دونوں جانب کے خاندان اچھی طرح چھان بین کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شادی کے بندھن میں بندھنے سے قبل دونوں اطراف کے خاندان کوشش کرتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی اور اِن دونوں کے خاندان کے بارے میں اچھی طرح جانچ پڑتال کر لی جائے۔

اُن کے مطابق شادی سے قبل لڑکے کی آمدن، ذرائع آمدن کا معلوم کی جاتی ہے۔ یہاں تک کے ایک دوسرے کی معاشرتی حیثیت کو بھی پرکھا جاتا ہے۔ اُن کے بقول ایسی باتیں چھپی نہیں رہتیں کہ کس خاندان کا عقیدہ کیا ہے۔

عامر محمود نے کہا کہ بات صرف نکاح نامے میں تبدیلی کی حد تک نہیں ہو رہی اور نہ ہی رہ جائے گی۔ بلکہ پاکستان میں آئے روز ایسی باتیں اور ایسے فارم شامل کیے جا رہے ہیں جن کے نتائج کچھ بھی آ سکتے ہیں۔

’اس کے پیچھے کسی کا ایجنڈا ہے‘

انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی چیئر پرسن اور ماہرِ قانون حنا جیلانی سمجھتی ہیں کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکمران ملک کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق ایسی کارروائیاں کسی وجہ سے کی جا رہی ہیں جس کے پیچھے ضرور کسی کا ایجنڈا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حنا جیلانی نے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے حکمران پاکستان کو بھی افغانستان بنانا چاہتے ہیں۔ طالبان کی پگڑی اپنے سروں پر باندھنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنے سے جو حشر افغانستان کا ہوا ہے پاکستان کا بھی ہو جائے گا۔

ورجینیا میں احمدی عبادت گاہ کا افتتاح
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:15 0:00

اُنہوں نے مزید کہا کہ بجائے ترقی پسند دنیا کو دیکھنے کے یہ لوگ پاکستان کو وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں مستقبل کے بچے سڑکوں پر ڈنڈے اور پگڑیاں لے کر پھریں۔

نکاح نامے میں تبدیلی کیسے ہوگی؟

ایم پی اے خدیجہ عمر کہتی ہیں کہ اسمبلی قواعد کے مطابق قرارداد کا منظور ہونا نکاح نامے میں تبدیلی کا پہلا قدم ہے۔ قرارداد منظور ہونے سے فوری طور پر نکاح نامے میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔

اُنہوں نے اِس حوالے سے مزید بتایا کہ قرارداد کی منظوری کے بعد دیگر قواعد پورے کیے جائیں گے اور قانون سازی ہو گی۔

خدیجہ عمر کہتی ہیں کہ قانون سازی کے لیے الگ سے بل ایوان میں پیش کیا جائے گا۔ اِس قرارداد کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔ تمام ارکانِ اسمبلی نے اِسے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔

کسی بھی قانون کی تیاری یا قانون میں ترمیم کے لیے الگ سے اجلاس بلایا جاتا ہے۔ ایوان سے منظوری کے بعد متعلقہ بل کو منظوری کے لیے گورنر کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ صوبے کے گورنر کے دستخط کے بعد وہ بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

مسلم لیگ (ق) کی رکن صوبائی اسمبلی خدیجہ عمر کہتی ہیں کہ بطور مسلمان اُن کا یہ فرض بنتا ہے کہ اگر کوئی دھوکہ دہی سے ایسا کرتا ہے تو اُس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

’اقلیتی شہری خوف میں جیتے ہیں‘

دوسری جانب چیئر پرسن ایچ آر سی پی حنا جیلانی کہتی ہیں کہ سب کو اپنا مذہب اچھی طرح معلوم تھا۔ اِنہی مذاہب کے مطابق سب کے والدین نے اُن کی تربیت کرتے ہیں۔

حنا جیلانی سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کو پاکستانی شہری ہونے کا احساس نہیں رہا۔ وہ ایک خوف میں جیتے ہیں۔

پاکستان میں احمدی گروپ کے مرکزی رکن عامر محمود کہتے ہیں کہ اِس سے قبل ایسے ہی فارم پاکستان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے حصول کے لیے جمع کرانے پڑتے ہیں۔ اب ایک نیا سرکاری فارم آ جائے گا جس پر سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کہا جائے۔

'مذہبی آزادی میں کوئی ملک بے داغ نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:45 0:00

اُن کے بقول نکاح نامے میں ختمِ نبوت کا خانہ شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں دیگر مذاہب کے لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ نکاح نامے میں تبدیلی سے وقتی طور پر شاید کوئی بہت بڑا اثر نہ ہو البتہ مجموعی طور پر اقلیتوں کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔

عامر محمود کے مطابق پاکستانی معاشرے میں دیگر مذاہب کے لوگوں پر پہلے ہی بہت سے سماجی اور معاشرتی دباؤ ہیں۔ اسی کارروائیوں سے یہ دباؤ مزید بڑہیں گے۔

رکنِ پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر کہتی ہیں کہ ایسے اقدامات سے معاشرے میں انتہا پسندی بڑھے گی نہ اقلیتوں کو کوئی خوف ہو گا۔ ہر مذہب کی اپنی عزت اور اپنا مقام ہے۔ دنیا کا ہر مذہب کہتا ہے کہ دوسرے مذہب کی عزت کی جائے۔

اُنہوں نے کہا کہ ایسی تبدیلیوں سے جو مسلمان متاثر ہوتے ہیں وہ محفوظ ہو جائیں گے۔

اِس سے قبل پنجاب اسمبلی رواں برس سرکاری دفاتر میں اور شہر کے داخلی راستوں پر مذہبی کلمات لکھنے کی قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال جولائی صوبائی اسمبلی میں ’تحفظِ بنیادِ اسلام‘ بل بھی منظور ہو چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG