رسائی کے لنکس

سمندری طوفان 'تاؤتے' سے کراچی اور دیگر ساحلی علاقوں کو کتنا خطرہ ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بحیرۂ عرب میں بننے والا طوفان 'تاؤتے' کراچی تک پہنچ پائے گا یا نہیں؟ اس پر محکمۂ موسمیات سمیت ساحلی علاقوں میں رہنے والی تمام آبادیوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات سردار سرفراز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت یہ طوفان جنوب مشرقی سمت میں کراچی سے ایک ہزار سے لے کر ایک ہزار پچاس کلو میٹر دور ہے اور اس کا ٹریک شمال مغرب کی جانب ہے لیکن بھارت کے شہر گجرات کے ساحل تک پہنچنے کے بعد یہ شمال مشرق کی جانب مڑ جائے گا اور پھر یہ 18 مئی کی صبح بھارتی ریاست گجرات سے ٹکرائے گا۔

پاکستان کو اس طوفان سے کتنا خطرہ ہے؟

سردار سرفراز کے مطابق پاکستان کے کسی ساحل کو اب اس طوفان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ان کے بقول گزشتہ روز جو صورتِ حال تھی اس کو دیکھتے ہوئے یہ لگ رہا تھا کہ اس طوفان کے کچھ نہ کچھ اثرات ہمارے ساحلی علاقوں پر بھی پڑیں گے لیکن اب یہ ہمارے ساحلی علاقوں سے دور ہو گیا ہے تو یہ خطرہ ٹل گیا ہے کہ یہ کسی ساحلی علاقے کو نقصان پہنچائے گا۔

تاہم ڈائریکٹر میٹ کے مطابق اس طوفان کے نتیجے میں سندھ کے کچھ علاقوں بدین، ٹھٹھہ، تھرپارکر، میرپور خاص، عمر کوٹ میں بارشیں متوقع ہیں لیکن یہ بارشیں بہت تیز نہیں ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ البتہ کراچی کا موسم اس طوفان کے پیشِ نظر تبدیل ضرور ہوا ہے کیوں کہ سمندر میں بننے والے اس طوفان نے ساحلی ہوا کو متاثر کیا ہے۔ لیکن آج شمال مشرق سے دن بھر ہواؤں کا سلسلہ جاری رہا، یہ ہوائیں گرم اور خشک علاقوں سے آ رہی ہیں جس کی وجہ سے شہر کا درجۂ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

شہر میں گرمی کا زور پیر کو بھی برقرار رہنے کا امکان ہے اور درجۂ حرارت 41 یا 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔

طوفان آنے سے قبل کیا تیاریاں کی گئی ہیں؟

سندھ حکومت نے بحیرہ عرب میں بننے والے سائیکلون کے ابتدائی الرٹ کے بعد سے ہی ممکنہ نقصانات سے نمٹنے کی تیاریوں کا جائزہ لینا شروع کردیا تھا اور اس سلسلے میں وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایک ہنگامی اجلاس ہفتے کو طلب کیا تھا جس میں محکمۂ موسمیات سمیت دیگر اداروں کو بھی بلایا گیا تھا۔

اجلاس میں صوبائی حکومت کو محکمۂ موسمیات نے دو ممکنہ ٹریکس سے آگاہ کیا۔ پہلا یہ کہ اگر طوفان بھارت ریاست گجرات کو عبور کرتا ہے تو اس کا اثر ٹھٹھہ، بدین، میرپور خاص، تھر پارکر، عمر کوٹ اور سانگھڑ اضلاع پر ہوگا۔ جس کے نتیجے میں تیز ہواؤں کے ساتھ ان علاقوں میں بارشیں متوقع ہیں۔

دوسرا یہ کہ اگر سمندری طوفان شمال مغرب اور کراچی کے مغرب کو عبور کرتا ہے تو اس کا اثر کراچی، حب، لسبیلہ، حیدر آباد اور جام شورو اضلاع پر پڑے گا۔ اس ممکنہ صوتِ حال کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی میں انتظامیہ کو نالوں کے چوکنگ پوائنٹس کو کلیئر کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر بھر سے تمام بل بورڈز ہٹانے اور زیرِ تعمیر عمارتوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات کی گئی ہیں۔

ماہی گیروں نے کشتیاں کنارے پر کھڑی کردی ہیں۔
ماہی گیروں نے کشتیاں کنارے پر کھڑی کردی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ کو اپنے اضلاع میں کنٹرول روم قائم کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ تھر پارکر اور سندھ کے دیگر اضلاع میں ممکنہ بارشوں اور اس سے ہونے والے نقصانات کے پیشِ نظر وہاں کے رہائشیوں کو متبادل رہائش اور خوراک فراہم کرنے کے انتظامات کی بھی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

طوفان کے پیشِ نظر ماہی گیروں کو پہلے ہی گہرے سمندر میں نہ جانے کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔

ٹاکٹے نام کس نے رکھا ہے؟

میانمار کی جانب سے اس طوفان کا نام تاؤتے تجویز کیا گیا ہے کیوں کہ طوفان بننے کے بعد میانمار کی باری تھی کہ وہ سائیکلون کا نام دیں گے تو ان کی جانب سے یہ نام سامنے آیا جس کا مطلب محکمۂ موسمیات کو بھی معلوم نہیں ہے۔

سائیکلون کے نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔ اس پینل میں ابتدائی طور پر سات ممالک تھے جن کی تعداد اب 14 تک بڑھ چکی ہے۔

ان ممالک میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، اور اومان شامل تھے۔ تاہم بعدازاں ایران، سعودی عرب،، متحدہ عرب امارات بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔

سن 2004 سے پہلے طوفان کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی، اس وقت طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا۔

سن 1999 میں ایک سائیکلون بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرایا تھا، تب اس کا نام Zero 2-A تھا جو اس سیزن کا بحیرۂ عرب کا دوسرا طوفان تھا۔

بعدازاں 'پی ٹی سی' میں تمام ممالک کے محکمۂ موسمیات کے درمیان یہ طے پایا کہ طوفانوں کے ایسے نام ہونے چاہئیں جو یاد رکھنے میں آسان ہوں، ادا کرنے میں سہل ہوں. جس کے بعد یہ طے ہوا تھا کہ ہر ملک ایک ایک نام دے گا۔ اس طرح 2004 میں ایک فہرست بنائی گئی جو 2020 تک رہی اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے گئے ان تمام کو استعمال کیا گیا۔

پاکستان کی جانب سے تجویز کردہ ناموں میں نرگس، نیلوفر اور بلبل شامل تھے۔ 2020 میں فہرست کا تجویز کردہ آخری نام 'ایمفن' تھا. یہ طوفان بے آف بنگال میں بنا تھا اور اس کا رخ بھارت کی جانب تھا۔

اس کے بعد نئی فہرست کے نام کا سلسلہ شروع ہوا اور حروف تہجی کے تحت سب سے پہلے بنگلہ دیش کا تجویز کردہ نام رکھا گیا۔ جس کے بعد میانمار کی باری آئی اور اس نے اس طوفان کا نام تاؤتے رکھ دیا جو پہلے سے تجویز شدہ تھا۔

واضح رہے کہ اگر مستقبل میں کوئی طوفان آتا ہے تو مالدیپ کا تجویز کردہ نام رکھا جائے گا جس کے بعد پاکستان کا تجویز کردہ نام طوفان کو دیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG