رسائی کے لنکس

جیل بھرو تحریکوں سے کب، کہاں، کیا نتائج حاصل ہوئے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

تحریک انصاف نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہ حکومت انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہے اور پارٹی کو ہراساں کرنے کے لیے راہنماؤں کو، پارٹی کے مطابق، جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا جارہا ہے، جیل بھرو تحریک کا اعلان کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ مختلف شہروں میں ہزاروں کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کرنے کے لیے پہلے سے رجسٹریشن بھی کرا دی ہے۔

تحریک انصاف یا عمران خان کے طرز سیاست کو سیاسی مبصرین پہلے ہی ایجیٹیشن پولیٹکس یا احتجاج کی سیاست قرار دیتے ہیں۔ دھرنے ہوں یا پھر لانگ مارچ، بجلی گیس کے بل پھاڑ دینے، ٹول پلازہ پر ٹیکس نہ دینے کی ہدایت ہو یا پھر جیل بھرو تحریک کی اسٹریٹجی، یہ سب ایسے احتجاجی حربے ہیں، جن کا مقصد سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرکے حکومت کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔اور ان اسٹریٹجیز کو دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔

تاریخ پر نگاہ ڈالیں توجیل بھرو تحریک مختلف خطوں میں مختلف ناموں سے نظر آئے گی۔ کہیں جیل بھرو آندولن کہلائی، کہیں 'فل ان دا جیلز' تو کہیں 'جیل ان' موومنٹ۔

مگر جیل بھرو تحریک ہوتی کیا ہے؟

اسے کیسے ممکن بنایا جاتا ہے؟

اور تحریک کےمقاصد کیا ہوتے ہیں؟

جیل بھرو تحریک:

جیل بھرو تحریک دراصل ایک سول نافرمانی کی موومنٹ ہے جس میں سیاسی یا سماجی کارکن یا کسی خاص نظریے کے حامی اپنے مقصد یا مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے جان بوجھ کر قانون شکنی کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں جیل جاتے ہیں۔

کثرت سے جیلوں کا بھر جانا یقینا" حکومت کے لیے کسی مالی اور انتظامی چیلنج سے کم نہیں ہوتا اور یہ حکومتی وسائل پر شدید بوجھ بھی ڈالتا ہے۔

مگر اس سے بھی اہم مقصد ایسی تحریکیں حکومت کے لیے عوامی غم و غصے کی علامت ہوتی ہیں جس کے ڈرامائی مناظر اندرون اور بیرون ملک حکمرانوں کے طرز حکومت پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں اور یہ دباؤ حکومت کو ان سے مذاکرات کے لیے اوران کے مطالبات منظورکرنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مزید اشتعال، انتشار اور بدامنی پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے جو کہ حکومت کو مزید غیرمقبول بنا سکتا ہے۔

اس تحریک کا بنیادی طور پر مقصد عوام کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے اعلان ہوتا ہے کہ وہ حکومت سے اس قدر ناراض ہیں کہ نہ قانون شکنی سے خوفزہ ہیں اور نہ اس کی سزا بھگتنے سے۔

یہ کسی بھی حکومت یا انتظامیہ کے لیے تشویش کی بات ہے۔

برطانیہ میں حقوق نسواں کی تحریک:

سال 1920 کی دہائی میں برطانیہ میں ووٹ کا حق مانگنے والی سفراجیٹس موومنٹ ( Suffragettes) سے وابستہ خواتین میں بہت سی خواتین جان بوجھ کر قانون شکنی کرتیں اور جرمانہ بھرنے سے انکار پر جیل جاتیں۔ مستقل مزاجی کے ساتھ احتجاج اور سختیاں سہنے کے بعد 1928 میں بالآخر تمام خواتین ووٹ کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ووٹ کا حق حاصل کرنے کی قیمت محض جیل کی سختیاں نہیں تھیں، اس تحریک سے متعلق واقعات میں درج ہے کہ بہت سی خواتین کی ملازمتیں گئیں، شوہروں سے علیحدگیاں ہوئیں اور بچے چھین لیے گئے۔

امریکہ میں سول رائٹس موومنٹ اور چلڈرن کروسیڈ

1950 اور 60 کی دہائی میں امریکہ میں سول رائٹس موومنٹ یعنی شہری حقوق کی تحریک کے دوران بھی کچھ ایسا نظر آیا جس کا مقصد امریکہ میں نسلی بنیاد پر تفریق ختم کرنا تھا۔ اس سول نا فرمانی میں بہت سے سیاہ فام افراد ، سفید فام افراد کے لیے مخصوص سہولتیں استعمال کرکے جان بوجھ کر قانون شکنی کرتے اور جیل جاتے۔

سول رائٹس موومنٹ سے وابستہ سب سے بڑا نام سمجھےجانے والے مارٹن لوتھر کنگ جونئیر بھی نسلی علیحدگی کے خاتمے کے لیے سول نافرمانی کی حامی تھے۔

امریکی سول رائٹس موومنٹ میں ایک تاریخی موڑ اس وقت آیا جب 1963 میں امریکی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم میں ایک ہزار سے زائد سیاہ فام بچے اسکول چھوڑ کر سڑک پر احتجاج کے لیے نکلے جنہیں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ اگلے روز پھر ایک ہزار سے زائد بچے سڑک پر احتجاج کرنے نکلے جن پر پولیس نے نہ صرف لاٹھیاں برسائیں بلکہ کتے چھوڑے اور آگ بجھانے والے پائپس سے شدید پریشر کے ساتھ پانی پھینکا۔ تشدد کے باوجود بچوں نے روزانہ کی بنیاد پر احتجاج جاری رکھا جسے تاریخ میں 'چلڈرنز کروسیڈ' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ معصوم بچوں پر سرکاری جبر اور تشدد کے مناظر دنیا بھر میں دیکھے گئےاور غم و غصے کا باعث بنے۔

یہ احتجاج اتنا طاقتور ثابت ہوا کہ صدر جان ایف کینیڈی بھی وفاقی سول رائٹس قانون کی حمایت میں کھڑے ہوگئے اور بالآخر 1964 میں اس قانون کے منظور ہونے پرامریکہ میں نسلی علیحدگی کا خاتمہ ہوا۔

جنوبی افریقہ:

1952 میں جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف بھی کچھ ایسا ہی احتجاج نظر آیا جسے ' دا ڈیفائنس کیمپین' کا نام دیا گیا۔ جہاں کارکنان قوانین کو توڑتے اور جیل جاتے جس سے حکومت پر نسلی امتیاز پر مبنی قوانین ختم کرنے کا پریشربڑھتا چلا گیا۔ نسل پرستی کے خلاف مہم کی علامت بننے والے رہنما نیلسن منڈیلا کے بقول سیاہ فام کارکنان کے لیے اس مقصد کے لیے جیل جانا نشانِ امتیاز بن گیا تھا۔

متحدہ ہندوستان: کوئِٹ انڈیا موومنٹ ( Quit India Movement)

متحدہ ہندوستان کی تاریخ دیکھیں تو سول نافرمانی برطانوی راج کی سماجی یا سیاسی پالیسیوں پر بطور احتجاج بار بار بطور ہتھیار استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔ غیر متشدد سول نا فرمانی پر یقین رکھنے والے مہاتما گاندھی 49 سال سے75 سال کی عمر تک گیارہ بار جیل گئے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بار بار جیل جا کر عوام کے دل سے قانون توڑنے اور جیل جانے کا خوف ختم کردیا۔

1942 میں برٹش راج کے خاتمے کے مطالبے کی تحریک 'کوئِٹ انڈیا موومنٹ' کے دوران 'سوِل ڈس اوبیڈیئنس' یعنی نا فرمانی کی تحریک عروج پر نظر آئی جس دوران جیل بھرو آندولن کے دوران ہزاروں کارکنان جیل گئے۔

بھارت میں انا ہزارے کی جیل بھرو آندولن

سال 2011 میں بھارت میں سرکاری سطح پر کرپشن کے خاتمے اور سماجی اصلاحات پر 'جَن لوکپال بل' یعنی 'عوامی محتسب بل' کا مطالبہ وزیراعظم من موہن سنگھ کی جانب سے مسترد ہونے پر معروف سماجی کارکن انّا ہزارے نے بھوک ہڑتال کے بعد جیل بھرو آندولن کا اعلان کیا۔ انا ہزارے کے مطالبے پر بھارت بھر میں مظاہرے ہوئے اور بہت سی قد آور معروف اور سماجی شخصیات نے ان سے اظہار یک جہتی کیا۔ جیل بھرو موومنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے بل تیار کرنے کے لیے کمیٹی قائم کردی۔

پاکستان میں جیل بھرو تحریکوں کی تاریخ

پاکستان کی تاریخ میں 'جیل بھرو تحریک' چلانے کا ذکر کبھی 1977 میں پاکستان نیشنل الائنس کے نام سے نظر آتا ہے، کبھی بے نظیر دور حکومت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تو کبھی شوکت عزیز حکومت میں متحدہ مجلس عمل کی جانب سے۔ پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافذ کرنے پر اس کا اعلان پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی طرف کیا گیا۔ مگر سب سے قابل ذکر کوشش 1981 میں اور پھر 1986 میں جنرل ضیاء کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد تحریک بحالی جمہوریت 'موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی' کی جانب سے کی گئی جب بڑی تعداد میں کارکنوں اور رہنماؤں نےگرفتاریاں پیش کیں لیکن مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے ضیاء الحق دونوں بار اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اعلان کردہ 'جیل بھرو تحریک' کتنی کامیاب ہوتی ہے یا حکومت پر کتنی اثرانداز ہوتی ہے اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں سول نافرمانی کی صورت حال، گرفتاریاں پیش کرنے اور حکومت کے ردعمل پر منحصر ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق 'جیل بھرو تحریک' پارٹی چئیرمین عمران خان کی جیب میں موجود آخری ترپ کا پتہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کی یہ مہم ناکام ہوئی تو وہ حکومت پر اثر انداز ہونے اور اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لئے آئندہ کیا لائحہ عمل رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG