کراچی میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے وہاں غیر قانونی طور پر رہائشی فلیٹس بنانے کا ایک نیا کیس سامنے آیا ہے جس نے شہر کے سینکڑوں خاندانوں کا مستقبل بے یقینی بنا دیا ہے، جبکہ ان افراد کے بے گھر ہوجانے کے خدشات نے عوام کو انتہائی خوف زدہ کر دیا ہے۔
گلشن اقبال کے بلاک ٹین اے میں واقع مون گارڈن نامی رہائشی اپارٹمنٹ کے مکین پچھلے چار دن سے مسلسل سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہیں۔ چار دن پہلے سندھ ہائی کورٹ نے مکینوں کو حکم دیا تھا کہ مون گارڈن خالی کردیں کیوں کہ یہ ایک بلڈر عبدالرزاق ’خاموش‘ کی جانب سے پاکستان ریلوے کی اراضی پر ناجائز اور غیر قانونی قبضے کے بعد تعمیر کیا گیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم سے مون گارڈن کے سینکڑوں خاندانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مکینوں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اپنے فلیٹس کی باقاعدہ رجسٹرڈ دستاویزات موجود ہیں۔ اگر زمین قبضے کی ہے تو اس کا ذمے دار بلڈر ہے اسے گرفتار کرکے قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ ہم نے سالوں تک اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی جیون بھر کی کمائی سے یہ فلیٹس خریدے ہیں۔ عدالتی فیصلے سے ہمارا مستقبل داوٴ پر لگ گیا ہے۔
جمعہ کی شام صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب عدالت نے پولیس کو فلیٹس خالی کرانے اور انہیں سیل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ ڈی ایس پی ناصر لودھی کی سربراہی میں پولیس کی بھاری نفری جب مون گارڈن پہنچی تو مکنیوں نے ان کے خلاف بھی احتجاج شروع کردیا یہاں تک کہ راشد منہاس اور دیگر اہم شاہراہیں بلاک ہوگئیں۔
ڈی ایس پی ناصر لودھی نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان کی آمد کا مقصد معاملے کو سلجھانا اور عدالتی حکم کی تعمیل ہے۔ مکینوں اور پولیس کے درمیان کافی دیر تک مذاکرات ہوتے رہے جبکہ اس دوران پولیس اور عدالتی اہلکاروں کی موجودگی میں بلڈر کے دو دفاتر کا سامان باہر نکال کر انہیں سیل کردیا گیا۔
بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے مون گارڈن کیس سے متعلق پولیس کو 18 نومبر تک کارروائی کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے پولیس کو 18نومبر تک بلڈر عبدالرزاق ’خاموش‘ کو گرفتار کرکے عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ریلیف کی خبر ملتے ہی مون گارڈن کے متاثرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ متاثرین نے احتجاج اور چار دن سے جاری دھرنا ختم کر دیا۔
مون گارڈن کی ایک متاثرہ مکین نصرت اور ان کے شوہر سلطان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’ریلیف عارضی ہے۔ پانچ دن بعد کیا پھر یہی کچھ ہوگا؟ پولیس کو چاہئے کہ جس طرح وہ عدالتی حکم بجالانے کے لئے’مستعدی‘ دکھا رہی تھی اب اسی طرح بلڈر کو بھی گرفتار کرکے عدالت سے سزا دلوائے۔ ایک شخص کے لالچ کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی بے گھری کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔‘
ایک اور مکین حنیف نے وی او اے کو بتایا، ’تقریباً پانچ ہزار گز کے اس پلاٹ پر تعمیر شدہ مون گارڈن سترہ سال پہلے 1998 میں بننا شروع ہوا تھا۔9منزلہ عمارت میں کل 187فلیٹس ہیں۔ ان میں سے قریب 100آباد اور باقی ابھی خالی پڑے ہیں۔ بلڈر نے پچھلے سال یعنی 2014ء میں فلیٹس کا قبضہ دینا شروع کیا تھا۔‘
حنیف سمیت متعدد افراد نے وی او اے کو وہ تمام دستاویزات دکھائیں جو رجسٹرار نے فلیٹ ان کے نام سب لیز کرتے ہوئے جاری کی تھیں۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ملکیت کے اصل دستاویزات پوری پوری فائلوں کی شکل میں موجود ہیں۔ انہیں پتہ ہی تھا کہ اراضی سندھ حکومت نے سالوں پہلے محکمہ ریلوے کو اسٹیشن بنانے کے لئے دی تھی۔
ایک اور مکین ریحان شفیع نے بتایا ’اگر مون گارڈن قبضے کی زمین پر بنا ہے تو پھر پوری پٹی ہی ناجائز ہے کیوں کہ یہاں تقریباً تیرہ چودہ اپارٹمنٹس اسی قطعہ اراضی پر قائم ہیں جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ریلوے کی اراضی ہے‘۔
کیس سندھ ہائی کورٹ کے جج، جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت میں زیر سماعت ہے اور لئیق، پرویز اور شاہد سمیت مون گارڈن کے کئی مکین اس کی پیروی کر رہے ہیں، جبکہ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر اور ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ بھی اس کیس کے حوالے سے عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
کچھ دیرینہ علاقہ مکینوں نے بتایا کہ بلڈر پر پہلے بھی ایک مقدمہ چلتا رہا ہے۔ قانوناً وہ چار منزلوں سے زیادہ اونچی عمارت تعمیر نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن، اس کے باوجود اس نے ملٹی اسٹوری عمارت بنائی جو قانوناً درست نہیں۔
مون گارڈن کے حوالے سے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا موقف بھی سامنے آچکا ہے جن کا کہنا ہے کہ عمارت کو خالی کرانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ متعلقہ حکام کو اس کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کاکہنا تھا کہ محکمہ ریلوے تمام معاملات کو دیکھ کر کوئی فیصلہ کرے گا۔
دوسری جانب، وزیر بلدیات سندھ ناصر شاہ نے متاثرین کی قانونی معاونت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بے گھر ہونے نہیں دیں گے۔