اسرائیل کی دو روز تک جاری رہنے والی بمباری اور فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کے بعد جمعرات کے روز ان کے درمیان فائر بندی ہو گئی ہے۔ اگرچہ فائربندی کے بعد بھی کچھ راکٹ داغے گئے جس سے امن سمجھوتہ متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہوئے، تاہم دونوں فریقوں کا کہنا تھا کہ فائر بندی برقرار ہے۔
فائر بندی کے اعلان سے ایک رات پہلے اسرائیل نے غزہ میں بم برسائے جس سے اسلامی جہاد کے ایک سینئر رکن اور اس کے خاندان کے سات افراد ہلاک ہو گئے۔ کئی شہریوں نے اس حملے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حملے کے لئے پہلے سے خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ ایک شہری عبدلاحئی نے میڈیا کو بتایا کہ جس گھر پر حملہ ہوا وہ ایک پر امن گھر تھا اور حملے کے وقت اس گھر میں بچے بھی موجود تھے۔
فائر بندی سے قبل اسرائیل اور جہاد اسلامی کے درمیان دو روز تک شدید لڑائی جاری رہی۔ یہ لڑائی منگل کے روز اسرائیل کی جانب سے جہاد اسلامی کے ایک سینئر لیڈر کو ہلاک کیے جانے کے بعد شروع ہوئی۔
جہاد اسلامی نے اس کے رد عمل میں اسرائیل کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں شدید راکٹ برسائے۔ دو روز کی اس لڑائی کے دوران 450 سے زیادہ راکٹ داغے گئے جن سے کئی افراد زخمی ہوئے اور املاک کو نقصان پہنچا۔
تاہم حماس، جس کا غزہ اور اس علاقے میں آباد 20 لاکھ افراد پر کنٹرول ہے، اس لڑائی سے دور رہا۔
ادھر اسرائیلی صدر رووین ریولن نے فائر بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہرچند کہ اسرائیل لڑائی کو بڑھنا نہیں چاہتا، لیکن اگر اسرائیل کے شہریوں کی سلامتی کو خطرے میں پڑی تو وہ خاموش نہیں رہے گا۔
فائر بندی کے مؤثر ہونے کے بعد بھی اسرائیل کے جنوبی علاقے میں پانچ راکٹ گرے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاد اسلامی ان حملوں کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ اس کے پاس راکٹ اب بھی موجود ہیں۔
یہ لڑائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل کی سیاست افراتفری کا شکار ہے اور دو مرتبہ انتخابات ہونے کے بعد بھی اسرائیل کی دونوں بڑی پارٹیوں کے رہنما مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی اس حالیہ لڑائی کے نتیجے میں یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی راہ ہموار ہو جائے گی۔