رسائی کے لنکس

 کیا اسرائیل شام میں حزب اللہ کے بھاری جانی نقصان کے بارے میں محتاط نہیں رہا؟


ایرانی سرکاری ویب سائٹ کی طرف سے جاری کی گئی اس تصویر میں، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، ایرانی جنرل سید رضی موسوی کی تدفین کے موقع پر۔ 28 دسمبر، 2023 کو ۔ موسوی شام میں مبینہ اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ (بذریعہ اے پی)
ایرانی سرکاری ویب سائٹ کی طرف سے جاری کی گئی اس تصویر میں، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، ایرانی جنرل سید رضی موسوی کی تدفین کے موقع پر۔ 28 دسمبر، 2023 کو ۔ موسوی شام میں مبینہ اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ (بذریعہ اے پی)

اسرائیل شام میں ان مال بردار ٹرکوں، انفرااسٹرکچر اور لوگوں پر سلسلے وار مہلک حملوں کی ایک غیر معمولی کارروائی کر رہا ہے جو علاقے میں ایران کے پراکسیوں کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل میں ملوث ہیں ۔ یہ بات خبر رساں ادارے رائٹرز کو معاملے سے براہ راست واقف چھ ذرائع نے بتائی۔

ذرائع نے، جن میں شام کی فوج کے انٹیلی جینس دفتر اور دمشق کی حمایت کرنے والے علاقائی اتحاد کے ایک کمانڈر شامل ہیں ، کہا کہ اسرائیل نے سات اکتوبر کو حماس کے جنگجووں کی جانب سے اسرائیلی علاقے میں اچانک حملے اور غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی بمباری کی مہم شروع ہونے کے بعد اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے ۔

ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ اسرائیل شام میں برسوں سے ایران سے منسلک اہداف کو نشانہ بنا چکا ہے جن میں وہ علاقے شامل ہیں جہاں لبنان کا مسلح گروپ حزب اللہ فعال رہا ہے ، تاہم اب وہ ایرانی اسلحے کی منتقلی کےخلاف اور شام میں فضائی دفاع کے نظاموں پر زیادہ مہلک اور زیادہ تواتر سے فضائی حملے کر رہا ہے ۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں شام میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فضائی مہم میں حزب اللہ کے 19 ارکان ہلاک ہو چکے ہیں ۔ یہ 2023 کی کل تعداد سے دوگنی سے زیادہ ہے ۔ اسی عرصے کے دوران جنوبی لبنان میں اسرائیلی گولہ باری سے حزب اللہ کے 130 سے زیادہ جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں ۔

حکمت عملی میں تبدیلی کیوں ؟

اسرائیلی فوج نے اپنی مہم میں شدت کے بارے میں رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے ۔ایک سینئیر اسرائیلی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ حزب اللہ نے آٹھ اکتوبر کو حملوں کے ساتھ لڑائی کے اس مرحلے کا آغاز کیا تھا اور یہ کہ اسرائیل کی حکمت عملی ایک جوابی کارروائی ہے ۔

اسرائیل نے شام میں ایران سے منسلک اہدا ف پر کئی برس قبل حملے شروع کر دیے تھے لیکن حملوں سے واقف ذرائع نے بتایا کہ وہ بظاہر حزب اللہ کے ارکان کو ہلاک کرنے سے گریز کرتا تھا ۔ علاقے کے ایک انٹیلی جینس افسر نے کہا کہ اسرائیل کو ڈر تھا کہ حزب اللہ کے ارکان کی ہلاکتوں کی بڑی تعداد کے نتیجے میں گروپ لبنان میں سرحد سے ذرا ہی دور اسرائیلی دیہاتوں پر انتقامی کارروائی کر سکتا تھا۔

لیکن سات اکتوبر کے حملے کے بعد اب جب روزانہ کی بنیاد پر فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے ، اسرائیل شام میں لبنان کے حزب اللہ ارکان کو ہلاک کرنے میں زیادہ محتاط نہیں رہا ہے ۔

علاقائی اتحاد کے کمانڈر اور حزب اللہ کی سوچ سے واقف دو اور ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیل نے شام میں حزب اللہ کے خلاف اپنے محتاط حملوں کے ان کہے اصولوں کو ترک کر دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب وہ وہاں حزب اللہ کے بھاری جانی نقصان کے بارے میں زیادہ محتاط نہیں رہا ہے ۔

کمانڈر نے بتایا کہ اب وہ ایرانی اسلحے کو منتقل کرنے والے ٹرکوں اور شام میں دفاعی سسٹمز پر زیادہ مہلک اور زیادہ تواتر سے حملے کرتے ہیں۔ وہ ہر ایک پر براہ راست بمباری کرتے ہیں ۔ وہ ہلاک کرنے کے لیے بمباری کرتے ہیں۔

گزشتہ ماہ شام میں ایک مبینہ اسرائیلی حملے کے بار ے میں پوچھے جانے پر اسرائیل کی فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ اسرائیلی فورسز پورے خطے میں کام کرتی ہیں اور اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کے عزم کے اظہار کے طور پر ہر ضروری اقدام کرتی ہے ۔

حسن نصراللہ کا ٹیلی وژن خطاب

پانچ جنوری کو ٹیلی وژن پر ایک خطاب میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ گروپ گزشتہ تین ماہ میں شام کے متعدد مقامات پراسرائیلی گولہ باری میں اپنے متعدد جنگجو کھو چکا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سات اکتوبر سے قبل ہمار ا ایک فارمولہ تھا کہ اگر وہ شام میں ہمارے کسی بھائی کو ہلاک کریں گے تو ہم لبنان کے محاذ پر جوائی کارروائی کریں گے جہاں سکون تھا۔ عملی طور پر اس فارمولے کی شرائط بدل چکی ہیں۔ کیوں ؟ کیوں کہ اب پورا محاذ ہی روشن ہو چکا ہے۔

شام میں حملوں کی نوعیت

جنوبی شام میں دوسرے فضائی حملوں میں 28 دسمبر کو ایک اینٹی ایئر کرافٹ ڈیفنس سسٹم اور ایک ڈیفنس اڈے پر ایک فضائی حملہ کیا گیا ۔

شام کی انٹیلی جینس کے عہدے دار نے بتایا حملے دفاعی سازوسامان کو نشانہ بنا رہے تھےحتیٰ کہ اس سے بھی پہلے کہ فوجی انہیں نصب کر سکیں۔

شام کے دارالحکومت دمشق اور شمالی حلب کے ہوائی اڈے، جنہیں ایران ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے استعمال کرتا رہا ہے، تقریباً مسلسل خدمات سے محروم رہے ہیں۔

اسرائیل بار بار کہہ چکا ہے کہ وہ لبنان یا شا م میں کوئی دوسرا فرنٹ نہیں کھولنا چاہتا۔

حملوں میں شدت پر شام کا رد عمل

حملوں میں شدت آنے کے باوجود شام کی فوج نے ، جس کا اپنی خانہ جنگی کے دوران باغیوں سے لڑتے ہوئے حزب اللہ اور اور ایران دونوں کی جانب بہت زیادہ جھکاؤ تھا، خود اپنا محاذ نہیں کھولا ہے ۔

شام کی انٹیلی جینس کے عہدے دار نے کہا ، ہم اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی یا اس کے ساتھ جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے۔

معاملات سے براہ راست واقف تین ذرائع نے کہا کہ اسد کی اسرائیل کی جانب سے دھمکیوں کی وصولی کے بعد حماس کی حمایت میں کوئی اقدام کرنے کی حوصلہ شکنی ہوئی تھی۔

دو ذرائع نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائیوں کی دھمکیاں متحدہ عرب امارات کے ذریعے پہنچائی گئیں۔

متحدہ عرب امارات کےایک عہدے دار نے کہا کہ ایسے بیانات بے بنیاد ہیں۔ ان الزامات پر کسی تبصرے کے لیے رائٹرز کی درخواستوں پر شام کی وزارت اطلاعات نے کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔

تیسرے ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ حزب اللہ نے اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیا کیوں کہ اس نے حالیہ برسوں میں شام میں جو کچھ بنایا ہے وہ سب ضائع ہو جاتا۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG