پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹے نعروں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، امن لانا ہے تو فوج اور حکومت پر اعتماد رکھنا ہوگا۔
جی ایچ کیو راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے خلاف بہت سارے ثبوت ہیں، یہ لوگ استعمال ہورہے ہیں۔ آصف غفور کے مطابق وانا میں پی ٹی ایم کے کارکن فوج مخالف نعرے لگا رہے تھے، امن کمیٹی نے منع کیا تو دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ہلاکتیں ہوئیں، لیکن سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف پروپگینڈا کیا جارہا ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں بشمول حقانی نیٹ ورک کوئی بھی دہشت گرد نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ "آپریشن ضربِ عضب کے بعد تمام دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا، سپر پاور سمیت کوئی بھی فوج دہشت گردی کیخلاف کامیاب نہیں ہوئی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستانی فوج نے کامیابی حاصل کی۔"
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم پر بہت الزامات لگے لیکن وقت کیے ساتھ سب جھوٹے ثابت ہوئے۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے، ذاتی مفادات کی وجہ سے فوج کو گالیاں نہ نکالی جائیں۔
پی ٹی ایم کا موقف ہے کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ طالبان کے حوالے سے اب بھی اچھے اور برے طالبان کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اور حالیہ چھڑپ میں اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ امن لشکر جنہیں بعض حلقے حکومتی حمایت یافتہ طالبان بھی کہتے ہیں, نے پی ٹی ایم پر اس لیے حملہ کیا کیونکہ وہ جنوبی وزیرستان میں مبینہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف مظاہرے کرنا چاہتے تھے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے راہنما علی وزیر کے خاندان اور امن لشکر میں شامل افراد کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے لڑائی چلی آرہی ہے۔
اس جھڑپ کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جبکہ مقامی میڈیا اس کی کوریج نہیں کر رہا۔
پاکستانی میڈیا پر فوج کی طرف سے مبینہ دباؤ کے بارے میں بات کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہماری (فوج) طرف سے کسی بھی میڈیا ہاؤس کو کوئی ہدایت جاری نہیں ہوتی۔ میڈیا بہت اچھا کام کر رہا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ہمیں نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف پروپگینڈہ کیا جاتا ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا کے استعمال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
آصف غفور نے کہا کہ ہم سے زیادہ کسی کو خوشی نہیں کہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی، 2018 الیکشن کا سال ہے، تاہم سیاست اور الیکشن میں فوج کو نہیں گھسیٹنا چاہیے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، فوج کو آئینی حدود میں جو کردار سونپا گیا وہ اسے ادا کرے گی۔
یاد رہے کہ حالیہ چند مہینوں میں فوج کی طرف سے میڈیا اداروں پر دباؤ کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے اور بعض صحافتی تنظیموں کی طرف سے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس دباؤ کی وجہ سے صحافتی اداروں میں سیلف سنسرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے بعض نامور کالم نگاروں نے اپنے کالم سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہوئے یہ شکایت کی ہے کہ ان کے یہ کالم ان کے اخبارات نے شائع نہیں کیے اور اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی۔
بعض سیاسی راہنماوں نے بھی فوج کا نام نہ لیتے ہوئے اسے درپردہ طاقت قرار دیا اور الزام لگائے ہیں کہ وہ انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔