شام کے کیمپوں میں رکھے گئے داعش کے مبینہ سابق جنگجووں کے خاندان کے افراد آسٹریلوی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے درجنوں شہریوں کو وطن واپس لے جائے۔
کیمیل ڈاباوزی کی سڈنی میں پیدا ہونے والی بیٹی مریم اور ان کے تین بچے اس وقت شمال مشرقی شام میں ال روج کے مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔ وہ ان ساٹھ آسٹریلوی شہریوں میں شامل ہیں جو اس کیمپ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ سفارتکاروں کے لیے یہ بے حد خطرناک بات ہے کہ وہ ان کو وطن واپس لانے کے لیے علاقے کا دورہ کریں۔
ڈاباوزی کا کہنا ہے کہ اس وقت سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہے اور ان کی بیٹی اور نواسے نواسیوں کو گھر لایا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ علاقہ دوبارہ کسی بھی وقت شورش کا شکار ہو سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق داعش کے مبینہ سابق جنجگووں کی مشتبہ بیواوں اور بچوں پر مشتمل دس ہزار افراد ان ستر ہزار لوگوں میں شامل ہیں جن کو ال روج اور ال ہول کے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ یہ اعدادو شمار امریکہ میں قائم تھنک ٹینک نیوز لائن انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجی اینڈ پالیسی نے ترتیب دیے ہیں اور ادارے کے مطابق ان افراد میں زیادہ تر شام اور عراق کے شہری ہیں۔ ان لوگوں کو سال دو ہزار انیس میں جہادی گروپ کی شکست کے بعد حراستی مراکز میں لایا گیا تھا۔
رفاحی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ کیمپس تشدد، خوراک کی کمی اور طبی سہولیات کے فقدان کا شکار ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہاں موجود خواتین اور بچے استحصال کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین بھی خبردار کر چکے ہیں کہ یہ کیمپس عسکریت پسندوں کی نئی نسل تیار کر سکتے ہیں۔
ڈاباوزی نے آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کی بیٹی اور آگے ان کے تین بچوں کو وطن واپس لایا جانا چاہیے۔
’’ آپ اس خاتون کے بارے میں کچھ بھی سوچیں، ان کے تین بچوں کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بچے ایک محفوظ ماحول میں ہونے چاہیئں جہاں وہ سکول جا سکیں اور اپنی زندگی گزار سکیں۔ یہ بچے ہر روز اپنا بچپن کھو رہے ہیں‘‘
مریم ڈاباؤزی کا کہنا ہے کہ ان کو دھوکے سے اس وقت شام لے جایا گیا جب وہ سال دو ہزار پندرہ میں اپنے خاندان کے ساتھ ترکی میں تعطیلات گزار رہی تھیں۔
ان کا شوہر خالد زہاب داعش کا جنگجو تھا جو دہشتگردوں کے ایک تربیتی کیمپ پر فضائی حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
جرمنی اور فن لینڈ، رپورٹس کے مطابق پانچ خواتین اور اٹھارہ بچوں کو واپس اپنے اپنے ملکوں میں لے گئے ہیں۔ جرمنی کے میڈیا کے مطابق تین خواتین سے داعش کے ساتھ تعلق کے الزام میں پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ بیلجیم کی حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو شام کے حراستی مراکز سے واپس لے آئے گی۔
کیمیل ڈاباوزی نے آسٹریلوی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اپنے شہریوں کو واپس لائے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی وطن واپسی کے لیے اپنی کوششوں پر مبنی تجربات کو ایک کتاب کی صورت تحریر کیا ہے۔ اس کتاب کا نام ہے ’ اے فادرز پلی‘ یعنی ایک باپ کی اپیل.
آسٹریلیا کی حکومت نے مریم ڈاباوزی کے مقدمے پر تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم آسٹریلیا کے وزیر دفاع پیٹر ڈوٹن نے اس سے قبل کہا تھا کہ شام کے کیمپوں میں رکھی گئی داعش کے جنگجووں کی بیوائیں معصوم نہیں ہیں.