رسائی کے لنکس

کم عمر لڑکیوں کی شادیاں غیر قانونی قرار، 'یہ عدالت کا فیصلہ ہے شریعت کا نہیں'


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ کم عمری کی شادی روکنے اور شادی کی عمر متعین کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ عدالت نے ایک کیس میں 18 برس سے کم عمر میں شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

ماضی میں حکومت کی جانب سے شادی کی عمر متعین کرنے کے لیے قانون سازی پر مذہبی حلقوں کی جانب سے مزاحمت کی جاتی رہی ہے۔ تاہم پاکستان کے صوبے سندھ میں شادی کی کم سے کم عمر 18 برس کا قانون رائج ہے۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنے کا قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال جب کہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے۔ موجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ 18 برس سے کم عمر لڑکی مرضی سے آزادنہ طور پر شادی بھی نہیں کرسکتی جب کہ ورثا بھی جسمانی تعلق والا کوئی معاہدہ نہیں کراسکتے، بلوغت کی عمر 18 سال ہی ہے محض جسمانی تبدیلیوں پر 18 سال سے پہلے قانونی طور پر بلوغت نہیں ہوتی۔

وزیراعطم کے مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کاکہنا ہے کہ یہ عدالت کا فیصلہ تو ہوسکتا ہے لیکن یہ شریعت کا فیصلہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی 16 سالہ سویرا فلک شیر نامی لڑکی نے گزشتہ برس پسند کی شادی کی تھی جس کے بعد اس کی والدہ نے مئی 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور سویرا کی کم عمری کو بنیاد بنا کر کیس دائر کیا تھا۔

سویرا کی والدہ ممتاز بی بی کا کہنا تھا کہ اس کی کم عمر بیٹی کو ورغلا کر اس کی شادی کروائی گئی، اس کیس میں لڑکی نے لڑکے کے حق میں بیان دیا تھا تاہم اب عدالت نے ایس ایچ او گولڑہ کو حکم دیا ہے کہ دارالامان سے لڑکی واپس والدہ کے سپرد کر دی جائے۔


عدالتی فیصلہ میں مزید کیا کہا گیا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ بچے کی تعریف ایک ایسے فرد کے طور پر کی جاتی ہے جس کی عمر 18 سال پوری نہ ہوئی ہو۔ قانون کے مطابق ایک بچے کو کسی کی دیکھ بھال میں رکھنا ضروری ہے،چاہے وہ والدین ہو یا سرپرست یا دیگر دیکھ بھال کرنے والے ہوں۔ اس بچے کو کسی معاہدہ میں شامل ہونے کا ازخود اختیار نہیں دیا جاسکتا۔

اٹھارہ سال سے کم عمر بچی صرف بلوغت حاصل کرنے کے باوجود ذہنی طور پراس قابل نہیں ہوتی کہ اسے شادی کا معاہدہ کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ شادی کا معاہدہ ایک 18 سال سے کم عمر بچے یا بچی اور زائدالعمرفرد کے درمیان نہیں ہوسکتا، اگر ایسا معاہدہ ہوا تو یہ ایک غیر قانونی معاہدہ ہوگا اور باطل ہوگا۔عدالت نے قرار دیا کہ ایسی شادی کا معاہدہ مسلم فیملی لاز کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہو سکتا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ایک 18 سال سے کم عمر بچہ یا بچی اپنے والدین یا گارڈین کے زیرکفالت ہوتے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، لیکن اگر کسی کم عمر بچے یا بچی کی شادی کے نتیجہ میں بچے پیدا ہونے کی صورت میں ایک بچے کو کسی اور بچے کی کفالت کی ذمہ داری دے دینا درست نہیں۔

جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے مطابق کسی بھی بچے کو کسی جنسی سرگرمی میں شامل کرنے پر سیکشن 377 اے کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے، اگر یہ جنسی سرگرمی شادی کی صورت میں ہو تو تب بھی کم عمری کی صورت میں اس شق کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

سندھ میں کم عمری کی شادیاں، ٹیبلو شوز کے ذریعے آگہی مہم
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:06 0:00

عدالت کا کہنا تھا کہ 18 سال سے کم عمر بچے کسی بھی جنسی سرگرمی میں شامل نہیں ہوسکتا، خواہ یہ فیصلہ اس کے والدین یا سرپرست کی طرف سے کیوں نہ کیا جائے، اس طرح اس فیصلہ میں بچے کی رضامندی اہمیت نہیں رکھتی۔

اپنے فیصلہ میں جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر شادی کا معاہدہ 18 سال سے کم عمری پر غیر قانونی ہے اور اگر یہ معاہدہ بچے کی طرف سے کیا جائے تو اسے قانون کے مطابق ختم سمجھا جائے۔ عدالت نے متعلقہ کیس میں نکاح کو ختم کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ بچی کو اس کے والدین کے حوالے کیا جائے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ہمیں شادی کے لیے حتمی عمر مقرر کرنے کا اختیار نہیں لہذا عدالت کا یہ فیصلہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری وزارت پارلیمانی امور کو بھجوایا جائے جو اس معاملہ پر باضابطہ قانون سازی کرے۔

یہ عدالتی فیصلہ ہے،شریعت کا نہیں: حافظ طاہر اشرفی

وزیراعظم کے مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نےاس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ تو ہوسکتا ہے لیکن شریعت کا یہ فیصلہ نہیں ہے۔

کم سنی میں شادی کے حوالے سے پاکستان علما کونسل اور اسلامی نظریاتی کونسل کہہ چکے کہ کم سنی کی شادی روکی جائے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ اس سے پہلے 16 برس کی عمر کا فیصلہ ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا،صوبہ سندھ میں 18 سال کی عمر میں شادی کا قانون ہے لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔

اُن کے بقول ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو آگاہی اور شعور دیا جائے کہ کسی بچی کی شادی اس وقت کی جائے جب وہ عاقل اور بالغ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ فیصلہ عدالت نے دیا ہے لیکن اسے عدالت کا فیصلہ کہہ سکتے ہیں، یہ شریعت کا فیصلہ نہیں ہے۔

شادی کے لیے18 سالہ عمر کا تعین خلافِ شریعت نہیں: جسٹس ماجدہ رضوی

ہائی کورٹ کی سابق جسٹس(ر) ماجدہ رضوی نے کہا کہ بچیوں کی شادی کی عمر کا تعین کرنا اسلامی قوانین سے متصادم نہیں ہے۔ مختلف مقامات پر 14سال،16 سال یا مختلف عمر مقرر کرنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ کسی بھی جگہ پر قرآن یا حدیث میں موجود نہیں ہے، مختلف تشریحات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ حکومت لوگوں کی فلاح کے لیے کوئی بھی قانون سازی کرسکتی ہے۔ سندھ میں اس بارے میں قانون موجود ہے ۔ ملک میں کوئی قانون ایسا نہیں بن سکتا جو آئین کے خلاف ہو۔

جسٹس ماجدہ رضوی نے کہا کہ قرآن میں موجود ہے کہ یتیم بچوں کی جائیداد کسی سرپرست کے پاس ہو اور وہ انہیں اس وقت دی جائے جب وہ ذہنی طور پر بالغ ہوجائیں، اس کے مقابلہ میں شادی اس سے بڑا کانٹریکٹ ہے۔

اُن کے بقول شادی کے لیے بھی بچوں کو عقل اور سمجھ ہونی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزاریں، 14 سال کی بچی کی شادی کر دی جائے گی تو کیا اسے سمجھ ہو گی کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ کرسکے؟ یہ شریعت کے خلاف نہیں ہےِ؟ اسلام میں کسی بھی جگہ عمر مقرر کرنے نہیں ہے بلکہ شادی کی عمر کے بارے میں مختلف لوگوں کی تشریحات ہیں۔

جسٹس ماجدہ رضوی نے کہا کہ سندھ میں 18 سال سے کم عمر شادی کا قانون بن چکا ہے اور اب اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اجازت دی ہے کہ حکومت قانون سازی کرسکتی ہے۔

اس حوالے سے 2017 میں سینیٹ میں بل لانے والی پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران کہتی ہیں کہ عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ سینیٹ میں ہم نے اس قانون کو پاس کروایا لیکن قومی اسمبلی میں اس قانون کو مؤخر کروا دیا گیا اور سال 2017 سے اب تک یہ قانون تعطل کا شکار ہے۔

سحرکامران نے کہا کہ "دنیا کے کئی اسلامی ممالک نے 18 سال کی عمر کوشادی کی کم سے کم عمر مقرر کیا ہے، میں نے اس بارے میں جامعہ الازھر سے فتویٰ بھی لیا تھا جنہوں نے بتایا کہ 18 سال شادی کی عمر مقرر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔'

سحر کامران کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادی کی وجہ سے بچیوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہیں، بچیوں کو ذہنی و جسمانی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 15،16 سال کی عمر کی بچی کی شادی ان پر ظلم ہے۔ بعض بچیوں کی شادی کے بعد انہیں سسرال میں چائلڈ لیبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

XS
SM
MD
LG