اگر آپ ایک صحافی ہیں اور آپ کا شام کے شمال میں واقع الہول کیمپ جانا ہو، تو آپ کا سامنا کچی گلیوں میں نقلی تلواروں اور سیاہ بینروں سے کھیلتے اور مٹی میں لوٹتے بچوں سے ضرور ہوگا۔ عسکریت پسند گروپ داعش کے انداز میں لڑائی کا ڈرامہ انہیں کھیل کے لئے میسر واحد طریقہ ہے کیونکہ ان میں سے شاید ہی کوئی لکھنا پڑھنا جانتا ہو۔ ان کے پاس علم ہے تو وہ جو داعش کے بارے میں ان کی ماؤں نے انہیں دیا ہے۔
دو برس سے زیادہ ہو گئے، داعش کی خود ساختہ خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ اب دو برس سے زیادہ عرصے سے داعش سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے کوئی 27 ہزار بچے اس الہول کیمپ میں خستہ حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان میں سے بہت سے تو ابھی 13 برس سے بھی کم عمر ہیں۔ ان کا بچپن بے گانگی اور بے یقینی میں گزر رہا ہے۔۔۔۔ نہ سکول نہ کھیلنے کی کوئی جگہ۔۔۔ نہ ہی ان کی حالت سدھارنے میں دنیا کی کوئی دلچسپی۔
ان کے پاس ہے تو بس ایک ادارہ۔۔۔ داعش کی باقیات، کارندوں اور ہمدردوں کا وہ گروپ جو کیمپ کے اندر ہی موجود ہے۔ ایسے ہی خفیہ اور خاموش سیل مشرقی شام میں بھی موجود ہیں اور دوبارہ ابھرنے کے موقع کی تلاش میں ایک نچلے درجے کی بغاوت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
داعش کے پہلے متاثرین بچے ہیں
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، کرد حکام اور امدادی گروپوں کو خدشہ ہے کہ اس کیمپ سے عسکریت پسندوں کی ایک نئی کھیپ نکلے گی۔ وہ ان لوگوں کے آبائی ملکوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ ان خواتین اور بچوں کو واپس لے لیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے آبائی ملکوں کی حکومتیں بھی ان بچوں کو تحفظ دینے کی بجائے انہیں خطرہ تصور کرتی ہیں۔
سونیا خوش 'سیو دی چلڈرن' نامی تنظیم کی شام کے لئے رسپونس ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں ایک چار سالہ بچے کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ اسے تحفظ چاہئیے ۔۔۔ تعلیم چاہئیے۔
اس کیمپ میں جس میں داخلے پر پابندی ہے، تقریباً ایک مربع میل تک قطار اندر قطار خیمے نصب ہیں۔ حالات بہت مخدوش ہیں۔ بہت سے خاندان ایک ہی جگہ رہنے پر مجبور ہیں۔ طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔۔۔۔ صحت و صفائی اور صاف پانی تک رسائی بہت محدود ہے۔ گیس کے اسٹوو استعمال کرنے سے اکثر آگ بھی لگ جاتی ہے۔
50 ہزار کے لگ بھگ شامی اور عراقی یہاں آباد ہیں۔ ان میں 20 ہزار کے قریب بچے ہیں۔ اکثریت خواتین کی ہے جو یا تو جنگجوؤں کی بیویاں ہیں یا ان کی بیوائیں۔
یہیں ایک اور عمارت بھی ہے جس پر سخت پہرہ ہے۔ اسے انیکس کہا جاتا ہے۔ کیمپ کے اس حصے میں 57 ملکوں کی دو ہزار خواتین مقیم ہیں جن کے ساتھ آٹھ ہزار بچے ہیں اور ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ داعش کے پکے حامیوں کے لواحقین ہیں۔
میں تمہیں چاقو سے مار دوں گا!!
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ٹیم گزشتہ ماہ اس کیمپ کے دورے پر گئی تھی۔ ان کے ساتھ کرد محافظ بھی تھے۔ انیکس نامی کیمپ سے لگ بھگ درجن بچوں نے ان پر پتھر پھینکنے شروع کر دئیے۔ کچھ تلوار کی طرز کے دھات کے تیز دھار ٹکڑے لہرانے لگے۔
ایک بچہ جس کی عمر کوئی دس برس ہو گی چلایا، "ہم تمہیں مار دیں گے کیونکہ تم کافر ہو" تم خدا کے دشمن ہو۔ ہم اسلامک سٹیٹ ہیں۔ تم شیطان ہو۔۔۔میں تمہیں چاقو سے مار دوں گا۔۔۔میں تمہیں گرینیڈ سے اڑا دوں گا۔۔۔
ایک اور بچے نے گردن پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، " اللہ نے چاہا تو چاقو سے"
انیکس کے اندر ہی ایک مارکیٹ میں ایک عورت نے جو شیمپو، پانی کی بوتلیں اور پرانے کپڑے فروخت کر رہی تھی، نامہ نگاروں کو دیکھ کے نعرہ لگایا،" اسلامک سٹیٹ زندہ باد"
ایک اور عورت نے جو روسی زبان بولتی تھی اور جس نے اپنا نام 'مدینہ بکاراو' بتایا اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے بے حد فکر مند نظر آئی۔
فی الحال امید کی کوئی کرن نہیں ہے!!
سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں سے کچھ نے اپنے کچھ شہری واپس لئے ہیں مگر عرب، یورپی اور افریقی ممالک نے بہت ہی معمولی تعداد میں شہری واپس بلائے ہیں یا انہیں لینے سے انکار کر دیا ہے۔
ٹیڈ چائبین اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف کے لئے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے دسمبر میں اس کیمپ کا دورہ کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بچے وہاں اپنے کسی قصور کی وجہ سے نہیں ہیں اور انہیں والدین کے کئے کی سزا نہیں ملنی چاہئیے۔
کیمپ کے مرکزی حصے میں یونیسیف اور کرد حکام نے 25 لرننگ سینٹر قائم کئے تھے مگر وہ کووڈ 19 کی وباء کے باعث مارچ 2020 سے بند پڑے ہیں۔ یونیسیف اور اس کے ساتھ کام کرنے والے گروپوں نے بچوں میں کچھ کتابیں تقسیم کی تھیں کہ وہ خود ہی پڑھ لیں۔
انیکس میں حکام لرننگ سینٹر قائم نہیں کر سکے۔ اقوامِ متحدہ اور کرد حکام کا کہنا ہے کہ وہاں بچے اپنی ماؤں ہی سے کچھ پڑھتے ہیں اور زیادہ تر داعش ہی کے نظریات سیکھ رہے ہیں۔
اور ماؤں کو خدشات ہیں کہ ان کے بچے کیمپ میں رہے تو کچھ بھی نہیں سیکھ پائیں گے۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔۔۔انہیں تعلیم کی ضرورت ہے۔