جمعرات کے روز عراقی پارلیمان میں 73نئے ممبران کو شامل کیا گیا، جن میں سے 64 کی حلف برداری کی گئی، جب کہ 9 وہاں موجود نہیں تھے۔ عراقی پارلیمنٹ میں ان دنوں تعطیلات ہیں، تاہم نئے ارکان کی حلف برداری کیلئے خصوصی سیشن بلایا گیا تھا۔یاد رہےکہ نئی عراقی حکومت کی تشکیل میں طویل سیاسی تعطل کے بعد رواں ماہ کے آغاز میں 73 قانون سازوں نے اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دیا تھا۔
گزشتہ سال 10 اکتوبرکو عراق کے پارلیمانی انتخابات میں ایوان کی 329 میں سے 73نشستیں عراق کے بااثر شیعہ سیاست دان مقتدیٗ ا لصدر کے پیروکاروں نے حاصل کیں، تاہم وہ پارلیمان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا بلاک ہونے کے باوجود ، مخلوط حکومت کی تشکیل کیلئے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے میں میں ناکام رہا۔جس کی ایک اہم وجہ ایران نواز اندرونی شیعہ سیاسی حریفوں کے ساتھ جاری سیاسی کشمکش بھی تھی۔
بالآخر آٹھ ماہ سے جاری اس سیاسی غیر یقینی کا انجام، رواں ماہ کے آغاز میں مقتدیٗ الصدر کی "صدری تحریک" کے منتخب ہونے والے تمام 73 ارکان کے اجتماعی استعفوں کی صورت میں سامنے آیا۔
عراقی آئین کے مطابق اگر پارلیمنٹ میں کوئی بھی نشست خالی ہو جائے تو اُس پر دوبارہ انتخاب کرانے کے بجائے، ا س انتخابی حلقے میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو فاتح قرار دیا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نواز شیعہ جماعتوں کے "کورڈی نیشن فریم ورک" نامی اتحاد کو کل 122 نشستوں کے ساتھ، عراقی پارلیمان میں اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔
عراقی میں 2005 کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہےکہ مقتدیٰ الصدر کی پارٹی عراقی پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہو گی ۔جب کہ اُن کی غیر موجودگی میں ایران نواز سیاسی اتحاد کو نئی عراقی حکومت بنانے کا موقع ملے گا۔اِس اتحاد میں شامل "قانون اتحاد"سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمنٹ محمد سعدون الصیہود نےخبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ نئے ارکان کی حلف برداری کے بعد ، آج پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔"اب ہم صدر کے انتخاب اور اِس سیاسی اتحاد میں سے وزیر اعظم کو نامزد کرنے کے عمل پر کام شروع کریں گے"۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئی حکومت کی تشکیل کا کام جلد شروع کر دیا جائے گا۔نو منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کی حلف برداری کے بعد مقتدیٰ الصدرکی جانب سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، تاہم ایک روز قبل بدھ کو اپنے ایک بیان میں مقتدیٰ الصدر نے ایرانی پراکسیز پر عراقی سیاست میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نو منتخب آزاد ارکان اور اُن کے بلاک کے حامیوں پر دباو ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے پیروکاروں سے مزید کہا کہ وہ اصلاحات کے لٰیے اور قوم کو بچانے کے لیے بہادری سے کھڑے رہیں اور فرقہ وارانہ دباؤ کے سامنے نہ جھکیں، کیونکہ یہ بلبلوں کی مانند ناپائیدار دباؤ ہے،جو ختم ہو جائے گا۔"
اِس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی مبصر اور "بغداد سینٹر فار اسٹرٹیجک ا سٹڈیز" کے ڈائریکٹر مناف المساوی نے کہا کہ اس کے ذریعے مقتدیٰ الصدر نے اپنے سابق سیاسی اتحادیوں یعنی "کردستان ڈیموکریٹک الائنس" کے مسعود برزانی اور عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الہلبوسی کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا سیشن کرانے سے احتراز کریں۔کیونکہ ا ایسا کرنے سے اُن کا مخالف اتحاد پارلیمان کا کنٹرول سنبھال لے گا۔جب کہ مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کواِس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
ملک میں سیاسی ڈیڈ لاک کی وجہ سے مقتدیٰ الصدر اور اُن کے شیعہ حریف گروپوں کے درمیان نئی جھڑپوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)