رسائی کے لنکس

جوہری معاہدے کی بحالی، ایران کا امریکہ سے لچک دکھانے کا مطالبہ


 ایران یورپی یونین مذاکرات - فائل فوٹو
ایران یورپی یونین مذاکرات - فائل فوٹو

یورپی یونین کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ایران نے یورپی یونین کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانے کے حتمی مسودے کا جواب دے دیا ہے جب کہ ایرانی وزیر خارجہ نے امریکہ سے باقی تین مسائل کے حل کے لیے لچک دکھانےپر زور دیا ہے ۔

یورپی یونین نے ایران اور امریکہ کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے آٹھ اگست کو ایک مسودہ پیش کیا تھا جس پر ایران نے اپنے حتمی نوٹس یورپی یونین کے حوالے کیے ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ اب امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ حقیقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لچک دکھائے تاکہ حتمی معاہدے تک پہنچا جا سکے جب کہ اشنگٹن کہہ چکا ہے کہ وہ یورپی یونین کی تجاویز کی بنیاد پر 2015 کے معاہدے کی بحالی کے کسی معاہدے کو جلد طے کرنے کو تیار ہے۔

ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے پیر کو کہاہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق تہران کا جواب کسی حتمی قبولیت یا مسترد کرنے کا عکاس نہیں ہو گا ۔

ان کے بقول "تین مسائل ہیں جو اگر حل ہو گئے تو ہم آنے والے دنوں میں کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں، ہم انہیں بتا چکے ہیں کہ ہماری سرخ لکیروں کا احترام کیا جانا چاہیے، ہم کافی لچک دکھا چکے ہیں، ہم کوئی ایسا معاہدہ طے نہیں کرنا چاہتے جس پر 40 دن، دو ماہ یا تین ماہ بعد عمل درآمد ناکام ہو جائے ۔"

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان تہران میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سر براہ جوزف بوریل سے ملاقات کر رہے ہیں :رائٹرز
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان تہران میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سر براہ جوزف بوریل سے ملاقات کر رہے ہیں :رائٹرز

ایرانی مذاکرات کاروں نے کہا کہ یورپی یونین کے متن کے بارے میں تہران کے اضافی خیالات اور تحفظات سے بعد میں آگاہ کیا جائے گا۔ یورپی یونین کے عہدے دار نے پیر کے روز مسودے پر ایران کے جواب کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

دوسری جانب امریکہ نے کہا ہے کہ جوہری معاہدہ صرف اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے جب ایران 'بیرونی مسائل' کو چھوڑ دے، جو بظاہر تہران کے ان مطالبات کا ایک حوالہ ہے کہ اقوام متحدہ کا جوہری نگران ادارہ ایران میں غیر اعلان شدہ مقامات پر یورینیم کی افزودگی کے متعلق تحقیقات بند کرے اور یہ کہ پاسداران انقلاب فورسز کو دہشت گردی کی امریکی فہرست سے نکال دیا جائے۔

سفارت کاروں اور حکام نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ چاہے تہران اور واشنگٹن یورپی یونین کی 'حتمی' پیشکش کو قبول کریں یا نہ کریں، دونوں میں سے کسی کی جانب سے بھی اس معاہدے کو مردہ قرار دینے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ اسے زندہ رکھنا دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے۔

امیرعبداللہیان نے کہا کہ "آنے والے دن بہت اہم ہیں، اگر امریکہ لچک کا مظاہرہ کرنے میں ناکا م رہا تو بھی صورتِ حال بہت زیادہ پریشان کن نہیں ہوگی ۔ تب ہمیں باقی مسائل حل کرنے کے لیے مزید کوششوں اور مذاکرات کی ضرورت ہو گی۔"

ان کے بقول اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو واشنگٹن کی طرح ہمارا اپنا پلان 'بی' موجود ہے۔

وی آنا میں جوہری مذاکرات کا مقام: اے پی
وی آنا میں جوہری مذاکرات کا مقام: اے پی

ایران اور چھ عالمی طاقتوں نے 2015 میں جوہری معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔اس کے بدلے ایران پر امریکہ، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کی پابندیوں میں نرمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

سن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نےایران کی تیل کی برآمدات پر سخت پابندیاں نافذ کر دی تھیں جو ایران کی برآمدات کی آمدنی اور سرکاری محصولات کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

ایران اور امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے درمیان 11 ماہ کی بالواسطہ بات چیت کے بعد رواں برس مارچ میں جوہری معاہدے کی بحالی عنقریب ممکن دکھائی دی لیکن فریقین کے درمیان بات چیت کچھ رکاوٹوں کی وجہ سے منقطع ہو گئی۔ جس میں تہران کا یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ واشنگٹن یہ ضمانتیں فراہم کرے کہ کوئی بھی امریکی صدر اس معاہدے کو ترک نہیں کرے گا جیسا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔

بائیڈن یہ وعدہ نہیں کر سکتے کیوں کہ جوہری معاہدہ ، پابندی سے عاری ایک سیاسی افہام و تفہیم ہے نہ کہ قانونی طور پر پابند کوئی معاہدہ ۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں ناکامی سے اسرائیل کے ساتھ ایک نئی علاقائی جنگ کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جو سفارت کاری کے ذریعے تہران کو جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے میں ناکامی کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دے چکا ہے۔

اس خبر کے لیے بعض مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG