ایران کے نائب وزیر خارجہ نے پیر کو کہا کہ ایران اور سعودی عرب کو کشیدگی کم کرنے کے لیے ہر قدم اٹھانا چاہیئے۔
اس ماہ سعودی عرب کی طرف سے ایک شیعہ عالم دین کو سزائے موت دیے جانے پر مشتعل مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارتخانے کو حملے کا نشانہ بنایا جس کے بعد سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے اور دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے تہران میں ایک کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’ہم اس خطے کو مزید مستحکم اور محفوظ بنانے کے لیے کسی بھی قدم پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ہم اس خطے کے اصل چیلنج اور اصل خطرے سے نمٹ سکیں جو کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت ہے، جو اس خطے میں ہم سب کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔‘‘
عراقچی نے کہا کہ ’’انتہا پسند دہشت گرد عناصر‘‘ سے لڑائی کرنا اہم ہے جو پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔
’’ہم نے دیکھا ہے کہ اگر آپ شام میں ان سے لڑائی نہیں کریں گے تو آپ کو پیرس اور دیگر دارالخلافوں میں ان سے لڑنا پڑے گا ۔۔ ہمیں ان سے لڑنا ہے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ہم ان دہشت گرد عناصر سے شام میں، عراق میں اور خطے کے دوسرے علاقوں میں لڑیں، ورنہ ہم سب کو اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘‘
سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے پر مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پھیلانے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
سعودی عرب کا خیال ہے کہ تہران عراق، شام، لبنان اور یمن میں شیعہ مسلح گروہوں کی مدد میں ملوث ہے جو علاقے میں اس کی توسیع پسندانہ پالیسی کا حصہ ہے جسے سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اس ماہ متعدد بار کہا ہے کہ ایران سے تعلقات اس وقت تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکتے جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا اور ایک انقلابی ریاست کی بجائے ایک عام ریاست کا رویہ اختیار نہیں کرتا۔