سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ایران کے خطرے سے نمٹنے کے لیے جوہری بم بنانے کے امکان کو رد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
منگل کو خبررساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے اس سوال پر کہ اگر ایران نے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے باوجود بم بنا لیا تو کیا سعودی عرب جوہری بم حاصل کرے گا تو وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ ان کا ملک ’’وہ سب کچھ کرے گا جو ہمیں اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے کرنا پڑے گا۔‘‘
عادل الجبیر نے کہا کہ وہ جوہری معاہدے کے تحت ایران پر مغربی پابندیوں کے خاتمے کا خیر مقدم کریں گے اگر ایران غیر منجمد کیے گئے اثاثوں کو اپنے لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے استعمال کرے۔
مگر انہوں نے کہا کہ ’’اگر یہ پیسہ ایرانی حکومت کی مذموم سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو گا تو اس کا منفی رد عمل سامنے آئے گا۔‘‘
جوہری معاہدے کی مخالفت کرنے والے کچھ امریکی قانون سازوں، سعودی عرب اور اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اربوں ڈالر مالیت کے غیر منجمد کیے گئے اثاثوں کو دہشت گرد گروہوں اور ملیشیاز کی مالی معاونت کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں سعودی عرب کی طرف سے ایک شیعہ عالم دین کو سزائے موت دیے جانے پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ سزائے موت دیے جانے کے بعد مشتعل ایرانیوں نے تہران میں سعودی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ان خدشات کو رد کر دیا کہ سعودی عرب ایرانی خطرے سے نمٹنے کے لیے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
کیری نے رواں ہفتے ’سی این این‘ چینل کو بتایا کہ ’’آپ بم خرید کر اپنے ملک میں منتقل نہیں کر سکتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور عالمی معائنوں کے باعث ایسا کرنا بہت مشکل ہو گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوہری بم ہونے سے سعودی عرب زیادہ محفوظ نہیں بن جائے گا۔