رسائی کے لنکس

بھارت کا مقامی سطح پر تیار ہونے والا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز بیڑے میں شامل


بھارت کی بحریہ کا کہنا ہے کہ یہ بحری جہاز ملک میں طیار ہونے والا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے۔
بھارت کی بحریہ کا کہنا ہے کہ یہ بحری جہاز ملک میں طیار ہونے والا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے۔

بھارت نے اپنی مقامی جہاز سازی کی صلاحیتوں کو وسعت دیتے ہوئے اپنا پہلا مقامی سطح پر تیار ہونے والا طیارہ بردار جہاز بحری بیڑے میں شامل کرلیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق آئی این ایس وکرانت بھارت کا دوسرا آپریشنل طیارہ بردار بحری جہاز ہے۔ اس سے قبل بھارت کے پاس آئی این ایس وکرم ادتیا تھا جو اس نے بحر ہند اور خلیج بنگال کے دفاع کے لیے 2004 میں روس سے خریدا تھا۔

نئے262 میٹر بحری جہاز کو بھارتی بحریہ نے ڈیزائن کیا ہے اور اسے جنوبی بھارت میں کوچین شپ یارڈ میں تیار کیا گیا ہے۔ اسے بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر لانچ کیا تھا۔

بھارت کی بحریہ کا کہنا ہے کہ یہ بحری جہاز ملک میں تیار ہونے والا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے۔ جس میں تقریباً 1600 افراد پر مشتمل عملہ سوار ہوسکتا ہے جب کہ 30 طیاروں بشمول لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹر آپریٹ کیے جا سکتے ہیں۔

نیوی کے مطابق اس نئےبحری جہاز کی شمولیت کے بعدبحری بیڑے میں اب دو طیارہ بردار بحری جہاز، 10 ڈسٹرایرز، 12 فریگیٹس اور 20 کورویٹ جہاز ہوگئے ہیں۔

اس جہاز کو بیڑے میں شامل کرنے کے موقع پر بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے کہا کہ ''یہ ایک تاریخی دن ہے اور تاریخی کامیابی ہے۔''

ان کے بقول یہ بھارت کے دفاعی شعبے کو خودکفیل بنانے کے لیے حکومتی کوششوں کی ایک مثال ہے۔

نریندر مودی نے بھارت کی بحریہ کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ بھارت دنیا کے ان مٹھی بھر ممالک میں سے ایک ہو گیا ہے جن کا مقامی سطح پر طیارہ بردار بحری جہاز بنانے کاپروگرام ہے۔

بھارت کی وزارتِ دفاع کے مطابق بھارت کے نئے طیارہ بردار بحری جہاز کے 75 فی صد سے زائد پرزے مقامی سطح پر خریدے گئے ہیں جس میں سے نصف درجن بڑی صنعتوں اور 100 چھوٹے کاروبار کرنے والوں نے آلات اور مشینری فراہم کی ہے۔

البتہ دفاعی ماہرین کے مطابق اس طیارہ بردار بحری جہاز کی تیاری میں چھ سال کی تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت چھ گنا بڑھ کر 200 ارب بھارتی روپے (ڈھائی ارب ڈالر) تک پہنچ گئی۔

بھارت کا یہ 47 ہزار ٹن سے زیادہ کا جنگی طیارہ برداربھارت کے روسی ساختہ مگ 29 لڑاکا طیاروں کی لینڈنگ ٹرائلز سے گزرنے کے بعد 2023 کے آخر تک مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گا۔

بھارت کی جانب سے یہ طیارہ بردار بحری جہاز ایسے وقت میں بیڑے میں شامل کیا گیا ہے جب حالیہ برسوں میں چین نے بحر ہند، مغربی بحرالکاہل اور اس سے آگے اپنی موجودگی کو بڑھایا ہے۔

اگست میں چین نے نئی دہلی کے سیکیورٹی خدشات کے باوجود سری لنکا میں چین کی تیارہ کردہ بندر گاہ پر ایک بحری جہاز بھیجا تھا۔ بیجنگ کی جانب سے اسے تحقیق کے مقصد کے لیے استعمال ہونے والا جہاز قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دہرا استعمال ہونے والا جاسوسی جہاز ہے، جس کے بارے میں بھارت کو خدشہ تھا کہ یہ خطے کی نگرانی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔

نریندر مودی نے جمعہ کو کہا کہ ہند بحرالکاہل خطے اور بحر ہند میں سیکیورٹی خدشات کو طویل عرصے تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آج یہ علاقہ ہمارے لیے ملک کی ایک بڑی دفاعی ترجیح ہے۔ اس لیے ہم بحریہ کا بجٹ بڑھانے سے لے کر اس کی استعداد بڑھانے تک ہر سمت میں کام کر رہے ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG