انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں جمعے کے دن ایک ہزار سے زائد افراد نے سخت پہرے کے حصار والے چینی سفارت خانے کی جانب ریلی نکالی۔ وہ چین کی جانب سے اویغور کی مسلمان آبادی کے خلاف برتے جانے والے رویے پر احتجاج کر رہے تھے۔
مظاہرین میں سے زیادہ تر نے سروں پر پٹی باندھ رکھی تھی جس پر ’’اویغور بچاؤ‘‘ لکھا تھا۔
ریلی کے شرکا ’’گیٹ آؤٹ، چائنا‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ جکارتہ کے قدیم علاقے کی جانب جاتے ہوئے، جہاں چین کا سفارت خانہ واقع ہے، مظاہرین نے انڈونیشیا اور ویغور پرچم اٹھا رکھے تھے۔
مظاہرے کے منتظم، یوسف مرتک نے اپنے خطاب میں ’’چینی کمیونسٹ حکومت کی جانب سے اویغور مسلمان بھائیوں کے خلاف جبر، اذیت اور ظلم و ستم روا رکھے جانے‘‘ کی مذمت کی۔
مرتک قدامت پسند مسلمان اتحاد کے رہنما ہیں، جنہوں نے 2016ء میں جکارتہ کے چینی نژاد میئر کے خلاف، جن کا تعلق مسیحی اقلیت سے تھا، ریلیاں نکالی تھیں۔ انھوں نے چین کے سنکیانگ کے علاقے میں آباد اویغور مسلمانوں کو قید و بند میں رکھنے کے اقدامات بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ٹرک پر سوار، تقریر کرنے والے ایک اور شخص، سلامت معارف نے کہا کہ ’’ہم مسلمان اویغور آبادی کے خلاف نوآبادیاتی اور ظلم و ستم پر مبنی اقدامات کے خلاف ہیں‘‘۔ اجتماع نے ’’کمیونسٹو، چلے جاؤ‘‘ کے نعرے لگائے۔ ان میں سے چند نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر ’’ہم اویغوروں کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ تحریر تھا۔
انھوں نے انڈونیشیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اویغور آبادی کی مدد کی کرے۔
منتشر ہونے سے قبل، مظاہرین نے سفارت خانے کے سامنے نماز عصر ادا کی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کی دس لاکھ سے زائد اقلیتی مسلمان آبادی کو کیمپوں میں قید رکھا جا رہا ہے، جہاں ان کے خلاف مبینہ طور پر سیاسی جبر کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، اور ان پر اپنا مذہب ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔