ایک بھارتی پارلیمانی کمیٹی نے ٹیلی کام انڈسٹری سے متعلق حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے اربوں روپے کے کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں معروف بھارتی صنعتکار رتن ٹاٹا سے پوچھ گچھ کی ہے۔
بھارت کی 'پبلک اکائونٹس کمیٹی' کے سربراہ کے مطابق پیر کے روز ہونے والے اجلاس میں رتن ٹاٹا سے موبائل کمپنیز کو اجازت ناموں کی تقسیم سے متعلق اسکینڈل میں ان کے مبینہ کردار کے حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔
اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے تفتیشی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں کی جانب سے چند مخصوص موبائل کمپنیز کو رعایتی نرخوں پر لائسنس فراہم کرکے قومی خزانے کو 40 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا گیا تھا۔
اسکینڈل سے متعلق مقدمہ ایک بھارتی عدالت میں زیرِ سماعت ہے جس کے دوران گزشتہ ہفتے مقدمے کے ایک اہم ملزم اور سابق بھارتی وزیرِمواصلات اے راجا پر فردِ جرم عائد کردی گئی تھی۔
تفتیش کاروں کی جانب سے رتن ٹاٹا اور ان کی کمپنی 'ٹاٹا ٹیلی سروسز' پر اسکینڈل میں ملوث ہونے کے حوالے سے تاحال کوئی باقاعدہ الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔
'پی اے سی' کے سربراہ کے مطابق ایک اور ارب پتی بھارتی صنعتکار انیل امبانی بھی اسکینڈل کے حوالے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں منگل کے روز کمیٹی کے سامنے پیش ہونگے۔
ٹیلی کام انڈسٹری سے متعلق مذکورہ اسکینڈل کے باعث بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں قائم کانگریس حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اسے حزبِ مخالف کی جماعتوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسکینڈل کے باعث حکمران جماعت کو آئندہ چند ماہ میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے مقامی انتخابات کے دوران حریفوں کے ہاتھوں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مذکورہ پانچ میں سے ایک ریاست آسام میں پیر کے روز ریاستی اسمبلی کے انتخاب کیلیے ووٹ ڈالے گئے۔ ابتدائی جائزوں کے مطابق علیحدگی پسندوں کی پرتشدد کاروائیوں اور چائے کی پیداوار کیلیے مشہور اس ریاست میں کانگریس پارٹی اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی۔
آسام کے علاوہ کمیونسٹوں کے زیرِ اقتدار ریاستوں مغربی بنگال اور کیرالا ، جنوبی ریاست تامل ناڈو اور جنوبی بھارت کے نسبتاً چھوٹے علاقے پونڈی چیرے میں آئندہ دو ماہ کے دوران مقامی انتخابات منعقد ہونگے۔