رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں آزادی پسند لیڈروں پر عائد پابندیاں ختم


کشمیری لیڈر سید علی شاہ گیلانی پابندیاں اٹھنے کے بعد جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے گھر سے باہر آ رہے ہیں۔ 30 مارچ 2018
کشمیری لیڈر سید علی شاہ گیلانی پابندیاں اٹھنے کے بعد جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے گھر سے باہر آ رہے ہیں۔ 30 مارچ 2018

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرکردہ آزادی پسند لیڈروں کی نقل وحرکت پر عائد پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ ان لیڈروں میں سید علی شاہ گیلانی بھی شامل ہیں جنہوں نے سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں اپنی رہائش گاہ سے جہاں وہ گزشتہ آٹھ برس سے نظر بند تھے، باہر آکر ایک قریبی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی ۔

88 سالہ گیلانی جب مسجد سے باہر آ رہے تھے تو وہاں جمع لوگوں نے بھارت سے آزادی کے مطالبے اور پاکستان کے حق میں جم کر نعرہ بازی کی۔ بعد میں پولیس نے مظاہرین پر اشک آور گیس چھوڑی۔ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ مظاہرین میں شامل نوجوان تشدد پر اُتر آئے اور پولیس پر پتھراؤ کرنے لگے تھے۔

گیلانی نے اگرچہ خرابِ صحت کی بِناءپر حال ہی اپنے معتمدِ خاص محمد اشرف صحرائی کو اپنی جماعت تحریکِ حریت کا سربراہ مقرر کیا تھا ، لیکن وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر برابر غالب ہیں اور انہیں ان کے سیاسی مخالفین بھی استصوابِ رائے کے لیے چلائی جارہی تحریک کا سربراہ سمجھا جاتا ہے۔

گیلانی مسجد پہنچے تو ان کے ہمراہ 74 سالہ صحرائی کے علاوہ کئی ساتھی اور پارٹی کارکن تھے۔

گیلانی نے نمازیوں سے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ وہ ان پر عائد پابندیاں ہٹانے کے حکومت کے فیصلے پر وقت سے پہلے ردِ عمل ظاہر نہیں کریں گے بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد نئی حکمتِ عملی ترتیب دی جائے گی۔

جن دوسرے سرکردہ کشمیری راہنماؤں پر عائد پابندیاں مکمل طور پر ہٹالی گئی ہیں ان میں میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک شامل ہیں۔ یہ تینوں 'مشترکہ مزاحمتی قیادت‘نامی اتحاد کا حصہ ہیں جو تقریباً دو برس پہلے قائم کیا گیا تھا-

بھارتی کشمیر میں آزادی پسند لیڈروں پر عائد پابندیاں ختم
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:52 0:00

اس سے پہلے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ شیش پال وید نے یہ اعلان کیا تھا کہ گیلانی، میرواعظ اور ملک اب اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے کہیں بھی جا سکتے ہیں تاہم انہیں بھارت مخالف تقریریں اور امن و امان کے مسائل پیدا کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا ۔’وہ تینوں اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے آزاد ہیں۔ لیکن انہیں یہ ذمہ داری لینا پڑے گی کہ وہ امن و امان کے مسائل پیدا نہیں کریں گے ۔ انہیں قوم دشمن تقاریر کرنے سے بھی اجتناب کرنا ہوگا۔‘

بعض تجزیہ نگار استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے سرکردہ کشمیری لیڈروں کی سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیوں کو ہٹائے جانے کے اس غیر معمولی فیصلے کو بھارت کے وفاقی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کی طرف سے دیے گیے ایک حالیہ بیان کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ حکومتِ بھارت کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر ایک کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے ۔ انہوں نے کہا تھا ۔’ہم کشمیر کے دائمی حل کے لیے ہر ایک کے ساتھ بات کریں گے۔ ہم بات کرنے سے کسی سے پرہیز نہیں کریں گے۔ کشمیر ہمارا تھا، ہے اور رہے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے ہم سے جدا نہیں کر سکتی ہے‘۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG