رسائی کے لنکس

الہان عمر کے دورۂ پاکستان پر بھارت کا اعتراض، امریکہ کی وضاحت


امریکی ایوانِ نمائندگان کی رُکن الہان عمر چار روزہ دورے پر پاکستان میں ہیں۔ الہان نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا بھی دورہ کیا ہے جس پر بھارت کی جانب سے احتجاج سامنے آیا ہے۔ جب کہ امریکی حکام نے وضاحت کی ہے کہ الہان عمر کا یہ دورہ ذاتی حیثیت میں ہے۔

بھارت نے الہان عمر کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بھارت کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

20 اپریل کو پاکستان کے چار روزہ دورے پر آنے والی الہان عمر نے صدرِ پاکستان عارف علوی، وزیرِ اعظم شہباز شریف کے علاوہ پاکستانی کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود سے بھی ملاقات کی ہے۔

اس دوران ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں الہان عمر نے انسانی حقوق کی صورتِ حال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی حکومت پر زور دیں گی کہ وہ اس متنازع خطے پر توجہ دے۔

الہان عمر نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے پر ایک بیان میں کشمیر میں مواصلاتی پابندیوں اور شہریوں کی نقل و حرکت پر قدغنوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ الہان عمر نے جموں و کشمیر کے ایسے حصے کا دورہ کیا ہے جس پر پاکستان کا" ناجائز قبضہ" ہے۔ اگر کوئی سیاست دان" اپنی تنگ نظر ذہنیت کی سیاست کرنا چاہتا ہے" تو یہ اس کا کام ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ہماری علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ الہان عمر نے جمعرات کو مظفر آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اتنی بات ہوئی ہے جتنی ہونی چاہیے۔

ان کے بقول اس دورے سے انہیں امید ہے کہ اب انسانی حقوق اور اس سلسلے میں کام کرنے والوں پر زیادہ گفتگو ہو گی۔ کشمیر کا سوال بھی اس میں شامل ہے۔

الہان عمر امریکہ میں حکمراں جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں انہوں نے بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر نریندر مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے امریکی حکومت کی مبینہ جھجک پر سوال بھی اٹھایا تھا۔

اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے واشنگٹن میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ امریکہ کو بھارت میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزی پر تشویش ہے اور وہ اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اس وقت دونوں بھارتی وزرا ٹو پلس ٹو مذاکرات کے سلسلے میں واشنگٹن میں تھے۔

اس کے دو روز بعد ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ بھارت کو بھی امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تشویش ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ الہان عمر کا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ اور انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھانا ایک فطری بات ہے۔ اسی طرح بھارت کی جانب سے اس کی مذمت کرنا بھی ایک فطری ردِعمل ہے۔


سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد کا کہنا ہے کہ الہان عمر مسلمانوں کے مسائل اٹھاتی اور اسلاموفوبیا کے خلاف لڑتی رہی ہیں۔ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے خلاف بھی بولتی رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شیخ منظور احمد کا کہنا تھا کہ جب پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کا خاتمہ کیا تو اس وقت بھی الہان عمر نے اس مسئلے کو اٹھایا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی بھارت نے اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

لیکن شیخ منظو رکے بقول یہ کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے دورے ہوتے رہتے اور ایسے بیانات دیے جاتے رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے کشمیر کے دونوں حصوں کا دورہ کیا ہے۔ ایسے دورے جمہوری نظام کا حصہ ہیں۔

بقول ان کے اس سے قبل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے کشمیر سے متعلق بیانات ہوں یا مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی رپورٹ ہو، جس میں بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا، بھارت نے ایسے بیانات کی مخالفت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب الہان عمر نے پاکستان کا دورہ کیا تو انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنا اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کا معاملہ اٹھانا بھی ضروری سمجھا۔

ان کے مطابق بھارت نے اپنی پالیسی کے مطابق ان کے بیان پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

اس سے قبل کہ یہ معاملہ کوئی بڑا مسئلہ بنتا امریکہ نے ایک وضاحتی بیان میں اسے الہان عمر کا نجی دورہ قرار دیا۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واشنگٹن میں جمعے کے روز کہا کہ الہان کا دورہ امریکی حکومت کی جانب سے سرکاری دورہ نہیں ہے۔ وہ امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کا دورہ نہیں کر رہی ہیں۔

بھارت کے خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اینٹنی بلنکن کے قونصلر ڈیرک کولیٹ نے بھی کہا کہ الہان عمر کا دورہ غیر سرکاری اور نجی ہے اور وہ امریکی حکومت کی جانب سے کسی پالیسی میں تبدیلی کی نمائندگی نہیں کرتا۔

الہان عمر نے اسلام آباد میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی۔
الہان عمر نے اسلام آباد میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی۔

الہان عمر نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔جب کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکی حکومت کی مبینہ سازش کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ امریکہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

عمران خان سے الہان عمر کی ملاقات اس وقت متنازع بن گئی جب سیاست دانوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس ملاقات پر عمران خان سے سوال کر ڈالا۔

اس پر پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ الہان عمر نے عمران خان سے ملاقات کے دوران اسلامو فوبیا اور دیگر متعلقہ ایشوز پر تبادلہ خیال کیا۔

شیخ منظور احمد کے خیال میں امریکی حکومت کو وضاحت پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کیوںکہ عمران خان سے الہان کی ملاقات کے دوران اسلام آباد میں موجود امریکہ کے دو سینئر سفارت کار بھی تھے۔ جب کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

ان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ عمران خان سے الہان عمر کی ملاقات کے دوران جو بھی باتیں ہوئی ہوں اس کا کوئی غلط تاثر پیدا ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ یہ پیغام جائے کہ عمران خان سے ملاقات اور بات چیت کو امریکی حکومت کی تائید حاصل ہے۔

ان کے مطابق دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ کشمیر کے بارے میں الہان نے جو کچھ کہا اسے امریکی حکومت کا موقف سمجھا جائے۔ اسی لیے اس نے اس دورے کو الہان کا نجی دورہ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG