رسائی کے لنکس

مودی اور صحافیوں کے سوالوں کے جواب،  مگر کیسے؟


صدر جو بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی واشنگٹن میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز 22 جون 2023
صدر جو بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی واشنگٹن میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز 22 جون 2023

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کے دوران جہاں امریکہ اور بھارت کے غیر معمولی تعلقات نمایاں ہوئے وہیں ایک غیر معمولی بات ,وزیرِ اعظم مودی کا مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب اور سوالوں کا جواب دینا بھی تھا۔

بھارتی وزیرِ اعظم کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ لکھے بغیر بولنے اور صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔

لیکن وائٹ ہاؤس میں سرخ قالین پر چلتے ہوئے جب موقع آیا مشترکہ نیوز کانفرنس کا تو مودی نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب بھی دیا۔ یہ واقعی ایک غیر معمولی بات تھی اور سوال بھی انسانی حقوق اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر جن کی نوعیت بھارت کے لیے خاصی حساس سمجھی جاتی ہے۔

مئی 2022، ٹھیک ایک سال پہلے مودی نے جب جرمنی کا دورہ کیا تھا اور دونوں ملکوں نے متعدد دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کیے تھے جن میں 2030 تک بھارت کو صاف توانائی میں اضافے کے لیے 10.5 ارب ڈالر امداد کا معاہدہ بھی شامل تھا، مودی نے صحافیوں کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس موقعے پر صحافیوں کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور جرمن چانسلر اولف شولز نے مشترکہ تقریب میں خطاب بھی کیا جبکہ ایسے اعلیٰ سطحی دوروں میں صحافیوں کو کم از کم چارسوال کرنے کی اجازت تو ہوتی ہی ہے۔

اسی پس منظر میں جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں مودی کے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے کوغیر معمولی خیال کیا جا رہا ہے۔

لیکن نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ نیوز کانفرنس اس سے کہیں مختصر تھی جو عموماً صدر بائیڈن غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ منعقد کیا کرتے ہیں۔

عہدیداروں کے مطابق مودی کے سلسلے میں اتنا بھی ممکن نظر نہیں آرہا تھا مگرچونکہ امریکہ میں کوئی 'سٹیٹ وزٹ' جیسا کہ نریندر مودی کا ہے، اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس لیے امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے مودی کے معاونین کو صاف بتا دیا کہ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینا ایک معیار ہے۔

مودی کا دورہ: بھارت اور امریکہ میں سیمی کنڈکٹرز بنانے کا معاہدہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:06 0:00

چنانچہ ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ نیوز کانفرنس سے صرف ایک روز پہلے، بھارتی عہدیدار اس پر رضامند ہوئے۔

مشترکہ نیوز کانفرنس میں ایک امریکی رپورٹر نے مودی سے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کے بارے میں سوال کیا جبکہ ایک بھارتی رپورٹر کا سوال ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق تھا۔ دونوں ہی بھارت کے لیے نازک موضوعات ہیں۔

مودی نے انسانی حقوق کو جمہوریت کا حصہ قرار دیا اور بھارت کا دفاع کرتے ہوئے کہا، " جمہوریت ہماری رگوں میں بستی ہے۔" اور یہ کہ " جمہوریت میں کسی امتیاز کی کوئی جگہ نہیں ہے۔"

لیکن مودی کے ناقدین ان کے اپنے ملک کی صورتِ حال کے خوشگوار بیان پر کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ مودی ملک میں جمہوریت کو پیچھے کی جانب لے گئے ہیں۔

نریندر مودی کا دورہٴ امریکہ، تجزیہ نگاروں کی نظر سے
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:08 0:00

نو سال پہلے بھارت کے وزیر اعظمکا منصب سنبھالنے کے بعد سے 72 سالہ مودی نے بہت کم انٹرویو دیے ہیں۔ تاہم وہ سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں جہاں ان کے کروڑوں فالوورز ہیں۔ وہ ایک ماہانہ ریڈیو پروگرام بھی کرتے ہیں جس میں وہ اپنی حکومت کے منصوبوں کے بارے میں سامعین سے براہِ راست بات کرتے ہیں۔

لیکن ملک میں کسی امتیاز کی بنا پر پیش آنے والے واقعات پر مودی کبھی بات نہیں کرتے ۔ انہوں نے اس وقت بھی خاموشی اختیار کیے رکھی جب مذہبی اقلیتوں کو ہندو قوم پرستوں کے حملوں کا سامنا ہوا۔

وہ بھارت کے دور دراز شمال مشرق میں حالیہ تشدد پر بھی خاموش رہے جس میں مئی کے مہینے سے کم از کم 100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بات ہو آزادئ صحافت کی تو مودی کے صحافیوں سے گریز کو بعض ناقدین ان کے پریس کو اہمیت نہ دینے سے تعبیر کرتے ہیں۔

بھارت میں اگرچہ پریس کی آزادی میں انحطاط مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں شروع نہیں ہوا تاہم اس میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اس سال رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز کے شائع ہونے والے پریس فریڈم انڈیکس میں دنیا کے 180 ممالک میں بھارت گیارہ درجے نیچے آکر اب 161 ویں نمبر پر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال بھارت میں اوسطً تین یا چار صحافی اپنے کام کے دوران ہلاک ہوجاتے ہیں اور بھارت میڈیا کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں سے ایک ہو گیا ہے۔

گزشتہ ماہ بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے رپورٹ کو مسترد کیا تھا۔

( اس خبر میں کچھ معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG