رسائی کے لنکس

بھارت کا شرحِ سود برقرار رکھنے کا فیصلہ؛ معاشی ماہرین حیران کیوں ہیں؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

بھارت کے مرکزی بینک نے خلافِ توقع شرحِ سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر ماہرین معیشت حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اپنی تین روزہ میٹنگ میں اتفاق رائے سے شرحِ سود کو 6.50 فی صد پر برقرار رکھا ہے۔ جب کہ اس اعلان سے قبل ماہرین بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرحِ سود میں 25 بیسس پوائنٹ کے اضافے کی توقع کررہے تھے۔

واضح رہے کہ بھارت میں مئی 2022 سے شرح سود میں مسلسل چھ بار اضافہ کیا جا چکا ہے۔

ملک میں خردہ مہنگائی یعنی ریٹیل انفلیشن جنوری میں 6.52 فی صد اور فروری میں 6.44 فی صد رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار مہنگائی کو 2.6 فی صد کے مقررہ دائرے میں رکھنے کے ریزرو بینک کے ہدف سے بہت زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے شرح سود میں ایک اور اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا۔

مالیاتی امور کے متعلق لکھنے والے ادارے بلومبرگ کے ایک سروے کے مطابق 36 اقتصادی ماہرین میں سے صرف چھ نے یہ توقع کی تھی کہ شرحِ سود میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ بہت دنوں سے حکومت کا آر بی آئی پر دباؤ تھا کہ وہ شرح سود کم کرے۔

ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر شکتی کانتا داس (فائل فوٹو)
ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر شکتی کانتا داس (فائل فوٹو)

آر بی آئی کے گورنر شکتی کانتا داس نے یہ کہتے ہوئے اس فیصلے کو درست قرار دیا ہے کہ ایم پی سی نے اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے پالیسی ریٹ کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئندہ ضرورت پڑنے پر اقدامات کیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو نے مارچ میں اپنی شرح سود میں 25 بیسس پوائنٹ کا اضافہ کیا تھا۔

ماہرین کے مطابق آر بی آئی نے بینکنگ سیکٹر میں استحکام سے متعلق تشویش کے باوجود 'ریپو ریٹ' کو جوں کا توں رکھا ہے۔ یاد رہے کہ یہ فصلہ تین امریکی بینکوں سلور گیٹ، سلی کون ویلی بینک اور سگنیچر بینک کے دیوالیہ ہونے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

شکتی کانتا داس نے دنیا بھر میں جاری بینکنگ بحران پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ عالمی معیشت اتھل پتھل کے نئے دور کا سامنا کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں معیشت میں اتار چڑھاؤ پر آر بی آئی کی گہری نظر ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ 23-2022 میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں سات فی صد کا اضافہ ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ معیشت میں لچک ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق شرح سود میں اضافہ نہ کرنے کا مطلب عام طور پر لوگ یہ نکالتے ہیں کہ معیشت میں استحکام یا ٹھہراؤ آر ہا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ان کے بقول معیشت کی صورت حال بہتر نہیں ہے۔

شرح سود میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟

کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ ضروری اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے مہنگائی کی رفتار میں اضافے کو روکنے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ ضروری تھا۔لیکن اقتصادی امور کے ماہر پروفیسر امیر اللہ خان اس کے برعکس موقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شرحِ سود میں اضافے کا فیصلہ نہ کرنا مہنگائی کی رفتار کو روکنے کے مقصد سے کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق آر بی آئی پر دو طرح کا دباؤ تھا۔ ایک دباؤ قیمتوں میں اضافے کو روکنا تھا اور دوسرا غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہونے کی وجہ سے گھریلو سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک غیر ملکی سرمایہ کاری کافی ہو رہی تھی اور حکومت بھی پیسہ لگا رہی تھی تب تک ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اب غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو گئی ہے اور چونکہ حکومت کے پاس بھی پیسہ کم ہے اس لیے وہ بھی کم خرچ کر رہی ہے۔ اس لیے ملک کی اندر سرمایہ کاری کو بڑھانے کی ضرورت تھی۔

پروفیسر امیر اللہ خان بھارتی حکومت کی وزارت مالیات میں کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ ان کے مطابق مقامی سطح پر سرمایہ کاری میں اسی وقت اضافہ ہوتا ہے جب شرح سود کم ہو۔

ان کے بقول کوئی بھی صنعت کار اسی وقت سرمایہ کاری کرے گا جب شرح سود کم ہوگی اور اسے قرض لینے میں آسانی ہوگی اور وہ قرض کی ادائیگی کا بھی اہل ہوگا۔ لیکن اگر قرض 12 یا 13 فی صد شرح سود پر مل رہا ہو اور ریٹرن اتنا نہیں ہے تو پھر وہ کیوں سرمایہ کاری کرے گا۔

دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ شرحِ سود میں اضافہ نہ کرنے کا فائدہ بینکوں سے قرض لینے والے یا قرض کے عوض اپنی اشیا گروی رکھنے والوں کو ہوگا۔

روز گار کا سوال

امیر اللہ خان کے مطابق ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہونے کی وجہ سے بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ آر بی آئی کے سامنے یہ سوال بھی تھا کہ وہ کب تک شرحِ سود میں اضافہ کرتا رہے گا۔ کیوں کہ عوام کو روزگار بھی تو فراہم کرنا ہے۔

دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صورت حال میں تبدیلی آتی ہے تو آر بی آئی کے سامنے مزید اقدامات کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ عالمی معیشت کے مقابلے میں بھارتی معیشت مستحکم ہے اور وہ دوسرے ملکوں کی معیشت کی بہ نسبت بہتر حالت میں ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ شرح سود میں اضافہ بینکوں کے قرضوں کو متاثر کرتا ہے۔ ریپو ریٹ وہ شرح ہے جس کی بنیاد پر بینک قرض دیتے ہیں۔ اس شرح میں کمی ہونے پر لون سستا ہو جاتا ہے اور اضافہ ہونے پر بینک بھی اپنی شرح سود بڑھا دیتے ہیں۔اس کا اثر ہوم لون، آٹو لون، پرسنل لون اور تمام قسم کے قرضوں پر پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ماہانہ قسطوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

آر بی آئی کے گورنر کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ افراطِ زر میں کمی نہیں آجاتی۔

سیاسی اسباب؟

امیر اللہ خان آر بی آئی کے اس فیصلے کو سیاسی نکتۂ نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال نو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں ملکی معیشت ایک اہم ایشو کے طور پر موجود رہے گی۔ اس معاملے کا انتخابات پر اثر پڑتا ہے۔

دریں اثنا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائرکٹر کرسٹا لینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ اس سال عالمی معیشت کی شرح نمو تین فی صد سے بھی کم رہنے کی توقع ہے۔ تاہم ابھرتی ہوئی معیشتوں بالخصوص ایشیا سے معیشت کو رفتار ملے گی۔ ان کے بقول خیال کیا جاتا ہے کہ عالمی معیشت کا نصف حجم چین اور بھارت کے پاس رہے گا۔

اس پر امیر اللہ خان کہتے ہیں کہ چین اور بھارت کی آبادی ہی اتنی ہے کہ وہ عالمی معیشت کے نصف حجم کے مالک ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG