رسائی کے لنکس

بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے مذہبی اجتماع میں اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی، معاملہ کیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں سیکولر اور معتدل سوچ رکھنے والے سیاسی اور سماجی حلقے دسمبر کی سترہ سے انیس تاریخ کو ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں ہونے والے ہندو سادھووں کے مذہبی اجتماع میں ہونے والی بعض تقاریر کو انتہائی اشتعال انگیز اور تشویشناک قرار دے رہے ہیں، جن میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی تھی۔

رپورٹس کے مطابق، ہری دوار میں ہونے والے ہندو سادھووں کے اجتماع میں دائیں بازو کی متعدد تنظیموں سے وابستہ سادھووں نے شرکت کی اور مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں کے خلاف بھی مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر اشتعال انگیز زبان استعمال کی گئی۔ اس پروگرام کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

دائیں بازو کی ایک تنظیم ’ہندو رکھشا سینا‘ کے صدر سوامی پربودھانند نے اپنی تقریر میں میانمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''وہاں ہندووں کو بھگایا گیا اور سیاست دان، حکومت اور پولیس سب کھڑے دیکھتے رہے''۔

ان کے الفاظ میں، ''اب یہ ہمارا ملک ہے۔ آپ نے دلی بارڈر پر دیکھا کہ انھوں نے ہندووں کو مار ڈالا۔ اب اور وقت نہیں ہے۔ اب تم بھی مرنے مارنے کی تیاری کرو۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ میانمار کی طرح یہاں کے سیاست دان، فوج اور ہندووں سب کو ہتھیار اٹھا لینا چاہیے اور ہمیں صفائی مہم چلانی چاہیے''۔

مبصرین کے مطابق اس سے قبل بھی سوامی پربودھانند نے مسلمانوں کے خلاف بارہا اشتعال انگیزی کی ہے۔ انھوں نے 2018 میں مبینہ 'لو جہاد' اور دیگر معاملات کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف بیان دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی وزیر اعلیٰ پشکر دھامی، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور دیگر بی جے پی رہنماوں کے ساتھ ان کی تصاویر وائرل ہوئی ہیں۔

اترپردیش کے غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری اور ایک متنازعہ شخصیت یتی نرسنگھانند نے مبینہ طور پر کہا کہ ''مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ صرف تلوار سے کام نہیں چلے گا۔ دوسرے ہتھیار بھی رکھنے ہوں گے''۔ خیال رہے کہ اس سے قبل یتی نرسنگھا نند کے خلاف اشتعال انگیزی کے سلسلے میں کئی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں۔

وائرل ویڈیو کے مطابق ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری سادھوی انا پورنا عرف پوجا شکن پانڈے نے بھی ہتھیار اٹھانے کی بات کہی۔

ایک بی جے پی رہنما کی بھی شرکت

اس پروگرام میں دہلی بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے نے بھی شرکت کی۔ انھوں نے وہاں ایک نیا آئین پیش کیا۔ دہلی کے جنترمنتر چوک پر ایک پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی اشتعال انگیزی کے سلسلے میں انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت ضمانت پر جیل سے باہر ہیں۔

انھوں نے جمعرات کو ایک ویڈیو بیان جاری کرکے کہا کہ وہ آخری روز پروگرام میں صرف دس منٹ رہے ہیں۔ ان سے پہلے اور بعد میں کس نے کیا کہا اس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔

ہری دوار کے اس پروگرام میں کی جانے والی اشتعال انگیزی پر پورے ملک میں زبردست احتجاج ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مقررین کے خلاف کارروائی کرنے اور انھیں گرفتار کرنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رہنما اور 'رائٹ ٹو انفارمیشن' کے لئے کام کرنے والے ایکٹیوسٹ ساکیت گوکھلے نے جمعرات کو اتراکھنڈ کی پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔

ساکیت گوکھلے نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے اپیل کی ہے کہ اگر ریاست میں انتخابات کے اعلان سے قبل اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا ہے تو ہری دوار کے تمام پولیس افسروں کا تبادلہ کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کی اسمبلی کے انتخابات فروری یا مارچ میں متوقع ہیں۔

وسیم رضوی کے خلاف رپورٹ درج

ریاست اتراکھنڈ کی پولیس نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک مخصوص مذہب کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرکے نفرت پھیلانے سے متعلق وائرل ہو نے والی ویڈیوز پر کارروائی کرتے ہوئے وسیم رضوی عرف جتیندر نرائن تیاگی اور دیگر کے خلاف کوتوالی ہری دوار میں تعزیرات ہند کی دفعہ 153 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے اور بعد میں دوسرے لوگوں کے نام بھی رپورٹ میں شامل کیے جائیں گے۔

ہری دوار پولیس کے مطابق ایک شخص کی شکایت پر جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ وسیم رضوی کے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتا اس لیے اس نے دوسرے نامعلوم افراد کے خلاف شکایت کی۔

خیال رہے کہ وسیم رضوی اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں اسلام مذہب ترک کرکے ہندو مذہب اختیار کر لیا تھا۔

’ایسے واقعات برداشت نہیں کیے جائیں گے‘

ریاست اتراکھنڈ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس اشوک کمار نے جمعہ کے روز کہا کہ اتراکھنڈ میں ایسے واقعات برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔

ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اتراکھنڈ حکومت کے ترجمان سبودھ اُنیال نے ایک بیان میں کہا کہ ہری دوار کے پروگرام میں جو ہوا وہ غلط ہوا۔ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں پولیس ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔

دہلی کے مسلمان اور ہندو مل جل کر رہنا چاہتے ہیں، تجزیہ کار اجیت ساہی
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:45 0:00

اتراکھنڈ کے سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ اور کانگریس کی انتخابی مہم کمیٹی کے صدر ہریش راوت نے کہا کہ ہری دوار کا پروگرام غیر قانونی تھا۔ انھوں نے بی جے پی پر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کا الزام لگایا۔

خیال رہے کہ تاحال بی جے پی کی جانب سے باضابطہ طور پر اس سلسلے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

پرینکا گاندھی اور دوسروں کا شدید ردعمل

کانگریس کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی نے اشتعال انگیز تقریروں کی مذمت کی ہے اور مقررین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کے مطابق یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ جن لوگوں نے ایک خاص فرقے کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ایک سابق وزیر اعظم کو گولی مارنے کی بات کہی وہ لوگ آزاد ہیں، حالانکہ جو باتیں کہی گئی ہیں ''وہ آئین کے خلاف ہیں''۔

یاد رہے کہ پروگرام کے ایک مقرر نے کہا تھا کہ اگر وہ ایم پی ہوتے اور ان کے پاس ریوالور ہوتا تو وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کو یہ کہنے پر کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے، ان کے سینے میں تمام چھ گولیاں اتار دیتے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انھوں نے اپنی پارٹی کی ریاستی شاخ کو اس معاملے میں رپورٹ درج کرانے کی ہدایت دی ہے۔

’یہ سب کچھ ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے‘

سینئر تجزیہ کار رویندر کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہری دوار میں جو باتیں ہوئی ہیں وہ بھارتی معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ مقررین نے نہ صرف ہندووں کے ایک طبقے کو بلکہ مسلمانوں کو بھی مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس قسم کی باتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس وقت یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں بی جے پی کی پوزیشن اچھی نہیں ہے۔ اس لیے ایسے پروگراموں سے عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ہندووں کے ووٹ بی جے پی کو مل سکیں۔

انھوں نے پولیس کی جانب سے کارروائی نہ کیے جانے پر اظہار افسوس کیا۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت ہے اور پولیس حکومت کے تحت آتی ہے۔ اس لیے پولیس کی جانب سے کارروائی کرنے سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول، ملک کے مسلمان اس کھیل کو سمجھ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کی حرکتیں ان کو مشتعل کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں تاکہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو اور اس کا فائدہ بی جے پی اٹھائے۔

خیال رہے کہ بی جے پی مذہب کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کے الزام کی تردید کرتی آئی ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ وہ ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کو اپنا انتخابی ایجنڈہ بناتی ہے۔ وہ ووٹ کی خاطر سماج میں کشیدگی پیدا کرنے کی مخالف ہے۔

’پولیس کو از خود کارروائی کا اختیار ہے‘

ریاست چھتیس گڑھ کے سابق ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ایم ڈبلیو انصاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہری دوار میں جو کچھ کہا گیا وہ امن و امان کے حلاف ہے اور مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والا ہے، لہٰذا یہ قابل دست اندازی جرم ہے۔

ان کے مطابق جوں ہی یہ باتیں پولیس کے علم میں آئی تھیں پولیس کو از خود کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ ہتھیار اٹھانے کی بات کرنا اور ایک فرقے کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرنا جرم ہے۔ اس سے قبل جب بھی ایسے واقعات ہوتے تھے تو ہم لوگ فوراً کارروائی کرتے تھے۔

انھو ں نے کہا کہ اتراکھنڈ کا پولیس محکمہ وہاں کے سیاست دانوں کے نظریات کے تحت کام کر رہا ہے اور ان کا ساتھ دے رہا ہے، جبکہ اسے قانون اور آئین کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ پولیس اہلکار آئین اور قانون کی حکمرانی کا حلف لیتے ہیں نہ کہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنے کا۔

اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے کا بی جے پی کا منصوبہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:02 0:00

ان کے مطابق تعزیرات ہند کی دفعہ 154 کے تحت پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس قسم کی کارروائیوں کے خلاف از خود کارروائی کرے۔ اس دفعہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کون سا جرم قابل دست اندازی پولیس ہے اور کون سا نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بھارت میں جرائم کو روکنے کے لیے بہت سے سخت قوانین جیسے کہ یو اے پی اے اور قومی سلامتی ایکٹ موجود ہیں لیکن ان قوانین کا استعمال صرف اقلیتوں اور کمزور طبقات کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے اتراکھنڈ کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار کے اس بیان پر تنقید کی کہ ہم حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جو مناسب کارروائی ہوگی کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ نظر رکھنے کا کیا مطلب ہے۔ پولیس اہلکار کا یہ بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ اس پروگرام کی ویڈیوز وائرل ہیں اور جو کچھ کہا گیا ہے وہ ایک کھلے اسٹیج سے کہا گیا ہے۔ سب کچھ ریکارڈیڈ ہے۔ بادی النظر میں یہ کارروائی کرنے والا کیس ہے، بلکہ جرم کا ثبوت بھی ہے۔

اترپردیش کے سابق ڈائرکٹر جنرل آف پولیس وی این رائے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ پروگرام میں جو اشتعال انگیزی کی گئی وہ بہت خطرناک ہے۔ وہاں پولیس بھی موجود تھی لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

انھوں نے بھی فوراً کارروائی کرنے پر زور دیا اور کہا کہ یہ معاملہ قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا کیس ہے، کیونکہ یہ بیانات سماج اور ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے ہیں۔

ان کے مطابق پولیس کو کسی دوسرے شخص کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو گرفتار کرے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔

اترپردیش کے ایک اور سابق ڈائرکٹر جنرل آف پولیس وکرم سنگھ نے ایک میڈیا ویب سائٹ ’دی کوینٹ‘ کے لیے لکھے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ ہری دوار میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ بے حد خطرناک ہے اور اس کو فوری طور پر کچل دیا جانا چاہیے۔

انھوں نے مقامی پولیس کو مشورہ دیا کہ وہ فوراً تعزیرات ہند کی دفعہ 295 اے اور دفعہ 153 اے کے تحت کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں پر قومی سلامتی ایکٹ نافذ کرے۔ انھوں نے پولیس کی ناکارکردگی پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ پولیس کو قانون کا وفادار ہونا چاہیے نہ کہ سیاست دانوں کا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG