سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ چاند ستارے والے سبز جھنڈے پر ملک بھر میں پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرے۔ جسٹس اے کے سیکری کے بینچ نے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ وزارت کے مجاز اہل کاروں سے ہدایت حاصل کریں۔
بینچ نے اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کی ایک عرض داشت پر سماعت کے دوران یہ ہدایت دی۔ اس پر دو ہفتے کے بعد پھر سماعت ہوگی۔
وسیم رضوی نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ ہلال اور ستارے والا سبز جھنڈا غیر اسلامی ہے اور یہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ کا جھنڈا ہے جو کہ” ایک دشمن ملک“ہے۔ نواز وقار الملک اور محمد علی جناح نے 1906 میں جب مسلم لیگ قائم کی تھی تب انہوں نے اسے اپنا جھنڈا بنایا تھا۔ اس سے قبل اس کا وجود نہیں تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ کے رسول نے سفید اور سیاہ جھنڈا استعمال کیا تھا ہرا نہیں۔ بھارت کے مسلمان اسے اسلامی پرچم کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مسلم اکثریتی علاقوں میں مذہبی عمارتوں اور گھروں پر اسے لہرایا جاتا ہے اور کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس سے ہندو مسلم کشیدگی بھی پیدا ہوتی ہے۔
اہلسنت والجماعت کے ایک عالم دین مولانا یسین اختر مصباحی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ وسیم رضوی کا یہ اقدام سیاسی ہے۔ ” انہوں نے فرقہ پرستوں کو خوش کرنے کے لیے یہ مطالبہ کیا ہے۔ کون شخص کون سا رنگ استعمال کرتا ہے یہ نہ دستوری معاملہ ہے نہ قانونی، یہ ذاتی پسند کا معاملہ ہے۔ کسی بھی رنگ کے کپڑے سے جھنڈا بنایا جا سکتا ہے۔ وہ اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وسیم رضوی کے بارے میں بڑے شیعہ علما نے اپنی رائے ظاہر کر دی ہے۔ وہ شیعوں کے نمائندہ نہیں ہیں۔
دیوبند کے ایک بڑے عالم دین مولانا ندیم الواجدی نے اس پر رائے زنی سے انکار کیا۔ البتہ اتنا ضرور کہا کہ جمعة علمائے ہند کا جھنڈا سفید اور سیاہ ہے۔
خیال رہے کہ وسیم رضوی متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو خوش کرنے کے لیے اس قسم کے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت ہے اور وہ وہاں رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہیں۔