رسائی کے لنکس

پاکستانیوں سمیت مختلف ممالک کے اقلیتی افراد کے لیے بھارتی شہریت؛ 'حکومت کو اپنی اقلیتوں کا بھی سوچنا چاہیے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی نریندر مودی حکومت نے گزشتہ چار برسوں کے دوران پڑوسی ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے تین ہزار 117 اقلیتی افراد کو بھارت کی شہریت دی ہے۔

نائب وزیرِ داخلہ نتیانند ​رائے نے جمعرات کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا 'راجیہ سبھا' میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 14 دسمبر 2021 تک سات ہزار 306 پاکستانیوں نے بھارتی شہریت کے لیے درخواستیں دی تھیں۔

پارلیمنٹ میں انڈین یونین مسلم لیگ کے ایک رکن عبدالوہاب نے شہریت کے لیے دی جانے والی درخواستوں اور شہریت کی تفصیل پوچھی تھی۔

وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ​ تاریخ تک تینوں ممالک سے مجموعی طور پر دس ہزار 635 افراد نے شہریت کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ یوں شہریت کی درخواستیں دینے والوں میں لگ بھگ 70 فی صد پاکستانی تھے۔

نتیانند رائے کے مطابق یہ درخواستیں اِن ممالک کے ہندو، سکھ، جین اور عیسائی برادریوں سے تعلق افراد نے دی ہیں۔

نائب وزیر داخلہ نے بتایا کہ شہریت کے حصول کے لیے افغانستان سے 1152، امریکہ اور سری لنکا سے 223، نیپال سے 189 اور بنگلہ دیش سے 161 درخواستیں زیرِ التوا ہیں۔ اس کے علاوہ چین سے بھی دس درخواستوں پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ نتیاند رائے نے دسمبر کے اوائل میں بتایا تھا کہ 30 ستمبر 2021 تک ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد بھارتیوں نے اپنی شہریت ترک کی۔

حکومت کے مطابق 2018 سے 2020 کے درمیان پوری دنیا سے دو ہزار 254 افراد نے بھارتی شہریت کے لیے درخواستیں دیں۔

خیال رہے کہ بھارت نے دسمبر 2019 میں شہریت کے قانون میں ترمیم کی تھی جس کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ البتہ ابھی اس قانون یعنی سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) کے ضوابط تیار نہیں ہوئے ہیں۔ لہٰذا بھارت میں 1955 کے قانون کے تحت شہریت دی جا رہی ہے۔

بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے دسمبر 2019 میں بھارتی نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' کے پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 2014 کے بعد سے پڑوسی ممالک کے 600 مسلمانوں کو بھی بھارتی شہریت دی جا چکی ہے۔ ان کے بقول ان افراد میں پاکستانی بھی شامل تھے۔

رپورٹس کے مطابق​ ستمبر 2020 میں وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ سال 2019 میں 809 پاکستانی تارکین وطن کو بھی بھارت کی شہریت دی گئی۔

اس سے قبل جنوری 2020 میں وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ گزشتہ دو برس کے دوران 391 افغان اور 1595 پاکستانیوں کو شہریت دی گئی ہے جن میں بلا شبہ مسلمان بھی ہیں۔

'غیر ملکیوں کو شہریت دینا غلط نہیں'

سینئر تجزیہ کار وویک شکلا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اس لیے دوسری معیشتوں کی مانند یہاں بھی دیگر ممالک سے لوگ آتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔

ان کے بقول گڑگاؤں میں چار ہزار سے زائد جاپانی اور تقریباً پانچ ہزار جنوبی کوریا کے شہری ہیں۔ جب کہ بڑی تعداد میں چین کے شہری بھی وہاں کام کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے شہری بھی دوسرے ممالک میں کام کے لیے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ شہریت بھی حاصل کرلیتے ہیں۔

وویک شکلا نے کہا کہ خلیجی ممالک کے علاوہ دیگر ملکوں میں دوسرے ملک کی اقلیتوں کو شہریت دی جاتی ہے۔ ریاست پنجاب کے سیکڑوں افراد یومیہ امریکہ اور دیگر ملکوں کے سفارت خانوں میں جاکر درخواستیں دیتے ہیں۔

ان کے بقول اگر بھارت​ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو یہاں کی شہریت دیتا ہے تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ البتہ حکومت کو پہلے دیکھنا چاہیے کہ وہ جسے شہریت دے رہی ہے وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں کچھ کردار ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔

تجزیہ کار وویک شکلا کے خیال میں اگر حکومت شہریت دینا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ صرف اقلیتوں کو ہی نہیں بلکہ سب کو شہریت دے۔ ان کے بقول حکومت کے پاس ان بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے ہوئے لوگوں کو شہریت دے۔

ان کے مطابق یہ محض سیاست ہے۔ حکومت کو سیاست کے بجائے ملک پر نظر رکھنی چاہیے اور ملک کے مفاد کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

وویک کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں پنجاب میں مبینہ بے حرمتی کی بنیاد پر دو غیر مسلموں کو بھی مذہب کی بنیاد پر ہلاک کیا گیا۔ اس پر حکومت کیا کہے گی؟ ان کے بقول دوسرے ملکوں کے شہریوں کو پناہ دینا الگ بات ہے جب کہ شہریت دینے کا معاملہ بالکل الگ ہے۔

'شہریت دینے کا فیصلہ حکومت کا ہے'

انسانی حقوق کی تنظیم 'فورم فار سول رائٹس' کے صدر سید منصور آغا کے مطابق ​یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے کہ وہ کس کو شہریت دے گی اور کس کو نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں کی اقلیتوں کے بارے میں سوچنا کوئی غلط بات نہیں لیکن اپنے ملک کی اقلیتوں کے بارے میں بھی تو سوچنا چاہیے۔

منصور آغاز نے دعویٰ کیا کہ بھارت میں اقلیتی برادریوں پر دائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے حملے کیے جاتے ہیں۔ کہیں ہجوم کے ہاتھوں کسی کو ہلاک کیا جاتا ہے تو کہیں اقلیتی تعلیمی اداروں پر کسی بہانے سے حملہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کی اکثریت کے ساتھ اقلیت کا بھی خیال رکھے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔ لیکن ایسا دیکھا جاتا ہے کہ ​اقلیتوں پر حملے کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ جبکہ اقلیتی برادری کے کسی شخص سے کوئی غلط حرکت ہو جائے تو اس کے خلاف فوری پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج ہوجاتی ہے اور پولیس ایکشن لے لیتی ہے۔

ان کے خیال میں اگر دوسرے ملکوں سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے افراد آتے ہیں تو آپ اس کے ساتھ ہمدردی کیجیے۔ لیکن اپنے ملک کی اقلیتوں کے ساتھ بھی ہمدردانہ رویہ اپنائیے۔

اس بارے میں بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کرتی ہے اور اکثریت اور اقلیت میں کوئی تفریق نہیں کرتی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اقلیتوں کو بھی مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔

البتہ حکومتِ پاکستان مذہب کی بنیاد پر اقلیتی برادریوں کے ساتھ ناانصافی کے الزام کی تردید کرتی ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اگر ایسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے کہ کسی اقلیت کو اس کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر کسی وجہ سے بھی ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسے لوگوں کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔

'ہم پاکستان میں غیر محفوظ تھے'

رپورٹس کے مطابق مارچ 2019 میں ریاست مہاراشٹرا میں پونے کی ضلعی انتظامیہ نے 54 پاکستانی شہریوں کو جو کئی برسوں سے وہاں رہائش پذیر تھے، بھارتی شہریت دی تھی۔

ان افراد نے کئی برس قبل ہی شہریت کی درخواست دی تھی۔ تمام لوگوں کو انٹیلی جنس کی جانب سے منظوری دیے جانے کے بعد شہریت دی گئی تھی۔

شہریت حاصل کرنے والوں میں سے ایک شخص جے پرکاش نیبھوانی نے بھارتی خبر رساں ادارے 'اے این آئی' سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں پاکستان میں زیادہ دشواریوں کا سامنا تھا جب کہ انہیں بھارت میں بھی کافی جدوجہد کرنا پڑی۔

ایک اور تارکِ وطن خاتون لاج ویرانی کا کہنا تھا کہ ہم 20 سال قبل ایک شادی میں یہاں آئے تھے اور تب سے ہی ہم یہیں ہیں۔

اسی بارے میں ایک اور خاتون راکھی آسوانی نے کہا کہ ​وہ 2008 میں یہاں آئی تھیں۔ لیکن پاکستانی پاسپورٹ کی وجہ سے بھارت سے باہر جانا ان کے لیے مشکل تھا۔ ان کے بقول لیکن اب وہ ایک بھارتی شہری ہیں اور کہیں بھی جا سکتی ہیں۔

ایک اور شخص اوم پرکاش نے کہا کہ ہم پاکستان میں غیرمحفوظ تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق راجستھان حکومت نے 2019 میں تین اضلاع میں قیام پذیر 34 پاکستانی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دی تھی۔ ان میں سے کئی ہندو ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے وہاں رہ رہے تھے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کی انتظامیہ نے سندھی برادری سے تعلق رکھنے والے 75 پاکستانی پناہ گزینوں کو شہریت تفویض کی تھی۔

اسی طرح جولائی 2011 میں مدھیہ پردیش کی حکومت نے چھ پاکستانیوں کو بھارت کی شہریت دی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG