کون سا بالاکوٹ؟ پاکستانی مؤقف پر سوالات
پاکستانی ٹی وی چینلز پر بعض تجزیہ کاروں نے پاکستانی فوج کے ترجمان کے بیان پر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ بالاکوٹ کا علاقہ پاکستان کے ضلع مانسہرہ میں واقع ہے جو کنٹرول لائن سے بہت دور ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بھارتی طیارے کنٹرول لائن پار کرکے صرف تین سے چار میل تک اندر آئے تو ان کا 'پے لوڈ' پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں کیسے گرا؟
مظفر آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے روشن مغل کے مطابق انہیں لائن آف کنٹرول کے نزدیک چکوٹھی کے قصبے کے رہائشیوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے رات تین بجے کے قریب کئی طیاروں کے گزرنے کی زوردار آوازیں سنی تھیں جو نچلی پرواز کر رہے تھے۔
روشن مغل کے مطابق عینی شاہدین کے بیانات سے بظاہر لگتا ہے کہ بھارتی طیاروں نے چکوٹھی کے نزدیک سے لائن آف کنٹرول پار کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ چکوٹھی سے مظفر آباد بذریعہ سڑک 55 کلومیٹر دور ہے جب کہ بالا کوٹ اس سے مزید 45 کلومیٹر آگے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بالاکوٹ نام کا ایک گاؤں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عین لائن آف کنٹرول پر بھی واقع ہے لیکن وہ مظفر آباد سے کم از کم 200 کلومیٹر دور نکیال سیکٹر میں ہے۔
بھارت کا جیشِ محمد کا کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ
بھارت نے پاکستان میں سرحد پار کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پاکستان کی حدود میں کشمیر میں سرگرم مسلح تنظیم جیشِ محمد کا ایک کیمپ تباہ کردیا ہے۔
پاکستانی الزامات کے کئی گھنٹے بعد نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھارت کے سیکریٹری خارجہ وجے گوکھلے نے کہا کہ بھارتی طیاروں نے منگل کو علی الصباح پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں جیشِ محمد کے سب سے بڑے کیمپ کو نشانہ بنایا۔
نئی دہلی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق وجے گوکھلے نے کہا کہ فضائی کارروائی ممکنہ فدائین کے حملوں کو روکنے کے لیے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی گئی۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ نے دعویٰ کیا کہ کیمپ مولانا یوسف اظہر المعروف استاد غوری کی نگرانی میں چلایا جا رہا تھا جو ان کے بقول جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا بردارِ نسبتی ہے۔
وجے گوکھلے نے کہا کہ حملے میں کیمپ میں موجود بڑی تعداد میں جیش کے دہشت گرد، انہیں تربیت دینے والے اساتذہ اور تنظیم کے سینئر کمانڈرز مارے گئے ہیں۔
انہوں نے نے دعویٰ کیا کہ بھارت کو ملنے والی انٹیلی جنس معلومات کے مطابق جیشِ محمد بھارت کے کئی علاقوں میں خود کش حملوں کی تیاری کر رہی تھی اور کیمپ میں اس مقصد کے لیے فدائین کو تربیت دی جا رہی تھی۔
پلوامہ حملے کے بعد سے کشیدگی جاری
بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے پار کارروائی کا دعویٰ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔
لگ بھگ دو ہفتے قبل بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارت کی وفاقی پولیس کے ایک قافلے پر خودکش حملے میں 49 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
حملے کی ذمہ داری بھارتی کشمیر میں سرگرم مسلح تنظیم جیشِ محمد نے قبول کی تھی جس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پاکستانی ہیں۔
بھارت نے حملے کی ذمہ داری براہِ راست پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اسے جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
پاکستان اس الزام کی تردید کرچکا ہے اور اس نے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
پاکستان کے ارکانِ پارلیمان نے بھارت کی جانب سے سرحد کی خلاف ورزی پر فوراً پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کی جماعتوں کے کئی ارکان نے حکومت سے صورتِ حال پر غور کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔
مشترکہ اجلاس کی تجویز پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے دی جس کی مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے رکن فخر امام نے بھی تائید کی۔
ارکانِ پارلیمان نے مسلم ملکوں کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے کشمیر کی صورتِ حال پر بلائے جانے والے خصوصی اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو شرکت کی دعوت دینے پر بھی کڑی تنقید کی اور حکومت سے اجلاس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔