رسائی کے لنکس

بھارت: تبلیغی جماعت اور کرونا سے متعلق ٹی وی چینلز کی رپورٹنگ پر سپریم کورٹ کی شدید تنقید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تبلیغی جماعت پر کرونا پھیلانے کے الزام کے تحت کی جانے والی بعض نیوز چینلز کی رپورٹنگ پر سخت تنقید کی ہے

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں اظہارِ خیال کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ جمعیت علمائے ہند کی اس درخواست پر سماعت کر رہا ہے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ بعض نیوز چینلز کی جانب سے کرونا وائرس کو مرکزِ نظام الدین سے جوڑ کر مسلمانوں، بالخصوص تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کے تشخص کو خراب کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرتے ہوئے بے بنیاد رپورٹنگ کی جا رہی تھی۔

رواں برس مارچ اور اپریل میں بھارت کے بعض نیوز چینلز نے نئی دہلی کے نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں مختلف ممالک سے آنے والے تبلیغی رضاکاروں پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ انہی لوگوں نے بھارت میں کرونا وائرس پھیلایا ہے۔

اُس وقت ملک میں کرونا تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تھا اور میڈیا کی رپورٹنگ کے نتیجے میں بہت سے علاقوں میں مسلمانوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا تھا۔ خاص طور پر سبزی فروشوں کو غیر مسلم آبادیوں سے زبردستی بھگایا جانے لگا تھا۔ کئی مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔ ایسے واقعات میں ملوث بعض افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مرکزی وزارتِ صحت بھی کرونا وائرس کی یومیہ تعداد بتاتے وقت یہ بتا رہا تھا کہ ان میں اتنے فی صد کیسز تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہیں۔

پولیس نے بھی تبلیغی جماعت کے لوگوں پر مقدمات قائم کیے تھے اور کچھ کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ ذیلی عدالتوں نے ان پر عائد الزامات کو غلط قرار دیا تھا اور بیشتر تبلیغی رضاکاروں کو رہا کر دیا گیا تھا۔

کرونا بحران: بھارتیوں کا عاملوں اور نجومیوں سے رجوع
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:39 0:00

قبل ازیں ممبئی ہائی کورٹ کے اورنگ آباد بینچ نے اپنے ایک فیصلے میں نیوز چینلز کی رپورٹنگ پر شدید تنقید کی تھی اور یہاں تک کہا تھا کہ حکومت کو کرونا وائرس کے سلسلے میں راہ فرار درکار تھی۔ اسی وجہ سے ان لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

عدالت نے یہ بھی تبصرہ کیا تھا کہ یہ کارروائی سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے کی گئی تھی۔

اب سپریم کورٹ نے بھی سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں اظہارِ خیال کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس معاملے میں ایک جونیئر افسر کی جانب سے حلف نامہ داخل کرنے پر اپنی شدید ناراضگی ظاہر کی اور سالیسٹر جنرل تشارمہتا سے استفسار کیا کہ آپ یہ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا میں غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامے میں یہ کیسے لکھ دیا گیا کہ عرضی گزار نے بغیر کسی حوالے اور تفصیلات کے درخواست دائر کی ہے۔

عدالت نے تشار مہتا سے کہا کہ درخواست گزار نے پٹیشن میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے چلائے جانے والی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز خبروں سے متعلق تمام شواہد و ثبوت منسلک کیے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ عدالت سے اس طرح سے پیش نہ آئیں جس طرح آپ اپنے ماتحت افسران سے پیش آتے ہیں اور حلف نامہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ حقائق پر مبنی داخل کریں۔

کرونا بحران کے بھارتی معیشت پر برے اثرات
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:04 0:00

جس پر تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت پر سینئر افسر سے تازہ حلف نامہ داخل کریں گے۔

عدالت نے تشارمہتا سے یہ بھی کہا کہ حلف نامے میں یہ خصوصی طور پر تحریر کریں کہ ماضی میں ایسی شکایتوں پر مرکزی حکومت نے کن قوانین کے تحت کیا کارروائی کی ہے اور یہ کہ کیا حکومت کو ٹیلی ویژن چینلز پر پابندی لگانے کا اختیار ہے۔

جمعیت علما ہند کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی حکومت کے حلف نامے سے ایسا لگتا ہے کہ درخواست گزار نے پٹیشن داخل کر کے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف ہماری عدالت سے گزارش ہے کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والے ٹی وی چینلز پر پابندی لگائی جائے۔

جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس نے جو کچھ کہا ہے اس سے ہمارے مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہم نے میڈیا پر پابندی لگانے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ جو نیوز چینل ایک مخصوص قوم کو منصوبے کے تحت یک طرفہ رپورٹنگ سے بدنام کر کے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر پابندی لگانے اور ان کے لیے کوئی حتمی گائیڈ لائنز مقرر کرنے کی اپیل کی ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے رویے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایسے چینلز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔

ٹی وی چینلز کی ریٹنگ میں گڑبڑ کی تحقیقات

ادھر ممبئی کے پولیس کمشنر پرم ویر سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی ریٹنگ میں گڑبڑ کے سلسلے میں 'ریپبلک ٹی وی' سمیت تین نیوز چینلز کے کردار کی جانچ کی جا رہی ہے اور 'ریپبلک ٹی وی' کی انتظامیہ کو تحقیقات کے لیے سمن جاری کیا جا رہا ہے۔

پولیس نے یہ کارروائی وزارتِ اطلاعات و نشریات اور ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا کے تحت کام کرنے والے ایک کنٹریکٹر 'بی اے آر سی' کی ریٹنگ ایجنسی ہنسا سروس پرائیویٹ لمیٹڈ کی شکایت پر کی ہے۔

شکایت کے مطابق ٹی آر پی بڑھانے کے لیے متعدد گھروں میں پیسے تقسیم کیے گئے اور کہا گیا کہ وہ فلاں نیوز چینل دن بھر آن رکھیں۔ یہاں تک کہ انگریزی سے ناواقف گھروں میں بھی انگریزی کے نیوز چینلز کو دن بھر آن رکھوا کر ٹی آر پی بڑھوائی گئی۔

پولیس کے مطابق گرفتار شدگان کے پاس سے 20 لاکھ روپے ضبط کیے گئے ہیں۔ باقی ملزمان کی تلاش کی جا رہی ہے۔

پولیس کے بقول مذکورہ چینلز کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور اگر غلط ٹرانزیکشن ہوئی ہے تو اکاؤنٹ منجمد کیے جائیں گے۔

پولیس کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے 'ریپبلک ٹی وی' کے مالک و اینکر ارنب گوسوامی نے کہا ہے کہ وہ ممبئی کے پولیس کمشنر کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔

ارنب گوسوامی نے الزام عائد کیا کہ ممبئی پولیس کمشنر اس لیے غلط الزام لگا رہے ہیں کیوں کہ سوشانت سنگھ راجپوت کیس میں ہم نے ان سے سوالات کیے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پولیس کمشنر عوامی طور پر معافی نہیں مانگیں گے تو انہیں عدالت میں ہمارا سامنا کرنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ بالی ووڈ اداکار سوشانت سنگھ کی مبینہ خودکشی کے معاملے میں 'ریپبلک ٹی وی' اور ارنب گوسوامی کے دوسرے چینل 'ریپبلک بھارت' پر مسلسل رپورٹنگ کی جا رہی ہے اور ممبئی پولیس کے کردار پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG