رسائی کے لنکس

کیا عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح کی کوشش ناکام ہوگئی ہے؟


عمران خان نے حاضرین سے سوال آپ کے گھر پر ڈاکہ پڑے اور چوکیدار کہے کہ میں نیوٹرل ہوں تو کیا آپ انہیں معاف کریں گے؟
عمران خان نے حاضرین سے سوال آپ کے گھر پر ڈاکہ پڑے اور چوکیدار کہے کہ میں نیوٹرل ہوں تو کیا آپ انہیں معاف کریں گے؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان ایک بار پھرعوامی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔

اتوار کی شب ٹیکسلا میں عوامی جلسے سے خطاب میں عمران خان نے حاضرین سے سوال کیا کہ آپ کے گھر پر ڈاکہ پڑے اور چوکیدار کہے کہ میں نیوٹرل ہوں تو کیا آپ انہیں معاف کریں گے؟

عمران خان نے مزید کہا کہ قوم ان لوگوں کی طرف دیکھتی ہے جو ان کو روک سکتے تھے۔ ’قوم آزاد ہوچکی ہے، پرائیوٹ نمبرز سے آنے والی دھمکیوں کا خوف نہیں رہا۔”

حکومتی حلقے عمران خان کی جانب سے اداروں پر تنقید کو بلاجواز قرار دیتے ہیں اور اس عمل کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اداروں کے خلاف عمران خان کی مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے چور اب اداروں کو بدنام کرکے اپنے جرم کی سزا سے بچنا چاہتے ہیں۔

اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران خان حکومت کے ساتھ ساتھ مسلسل اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔

تاہم گذشتہ ماہ کے وسط میں عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بیان کے بعد یہ تبصرے کئے گئے کہ پی ٹی آئی اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی راہ اپنا رہی ہے۔

اسی اثناء میں ایوان صدر میں عمران خان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی خبریں بھی چلیں جس کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوسکی۔

تاہم وزیر اعظم شہباز شریف اور عمران خان دونوں سے جب اس ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کی تردید نہیں کی۔ شہباز شریف نے کہا کہ وہ تو سیلاب کے معاملات میں مصروف ہیں۔ انہوں نے یہ سوال پوچھنے والے صحافی سے ہی سوال کر ڈالا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس ملاقات کی آڈیو بھی لیک ہوجائے؟

اے آر وائی کو دیے گئے انٹرویو میں جب میزبان نے عمران خان سے ایوان صدر کی ملاقات کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جھوٹ وہ بولنا نہیں چاہتے اور سچ کہہ نہیں سکتے۔

ایسے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا عمران خان کی اسٹیبلیشمنٹ سے مصالحت کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے بیانیے میں دوبارہ سے سختی کا پیدا ہونا اِس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہے۔

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بظاہر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان مصالحت کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہتے تھے کہ موجودہ حکومت کا فوری خاتمہ ہو اور جلد عام انتخابات کروائے جائیں لیکن ان میں سے کوئی صورت بھی فوری نکلتی دکھائی نہیں دے رہی۔

وہ کہتے ہیں کہ چونکہ عمران خان کو اس بات چیت سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے لہذا وہ اب دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ فوری عام انتخابات کروانے کے حق میں اس وجہ سے بھی دکھائی نہیں دیتی کہ غالباً وہ چاہتی ہے کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری بھی شہباز شریف ہی کریں۔

تجزیہ نگار جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ عمران خان کے بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے والی ان کی مصالحت کی کوشش زیادہ کامیاب نہیں رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات چیت دو طرفہ نہیں بلکہ سہ فریقی تھی اور لگتا ہے کہ حکومت کی طرف سے زیادہ لچک نہ دکھائے جانے پر یہ کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان تمام چیزوں کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنا چاہتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے اور عدالتوں کی جانب سے آنے والے فیصلے یا متوقع فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہیں ہے۔

نعیم خالد لودھی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اس صورت حال سے زیادہ خوش نہیں ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسا حل ہی پیش کرے جو سب فریقین کو قابل قبول ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے خود کو سیاسی معاملات سے دور کرلیا ہے اور سامنے آنے والے آثار کی بنیاد پر وہ دعوی کر سکتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ واقعی ہی غیر سیاسی ہوگئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی بنا پر موجودہ صورت حال میں فوج کی عمران خان کے لیے سخت یا نرم پالیسی کا اظہار نہیں ہوتا ہے اور اسی طرح حکومت کی طرف بھی جھکاؤ دکھائی نہیں دیتا۔

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ عمران خان کی حالیہ تقاریر سے ایسا لگتا ہے کہ ان کی مایوسی بڑھ رہی ہے، ان کے مطالبات پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن اپنے مقاصد حاصل کررہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کی واپسی، مریم نواز کی سزا کا خاتمہ اور اب نواز شریف کی واپسی کی باتوں سے عمران خان کو لگتا ہے کہ ان کا احتساب اور بدعنوانی کا بیانیہ گررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان اپنے اس بیانیے کو فعال نہیں رکھ سکیں گے تو آئندہ انتخابات میں انہیں خاصی مشکل ہو گی، عوامی حمایت کے حصول میں کیونکہ وہ اپنی چار سال حکومت میں بھی اس معاملے پر کچھ خاص کارگردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے حوالے سے ہما بقائی کہتی ہیں کہ عمران خان مقتدر قوتوں پر دباؤ اور بات چیت کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے اسی صورت اپنی بات منوا سکیں گے جب وہ عوامی طاقت کا اظہار کرتے رہیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ جنرل باوجوہ کی مدت میں توسیع کی بات کرکے عمران خان نے پیغام دیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی پرانی حکمت عملی ہے جس میں وہ کبھی کبھار آگے نکل جاتے ہیں۔

عمران خان لانگ مارچ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

عمران خان نے اتوار کے اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حقیقی آزادی کے لیے پارٹی کارکنوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے لئے تیار رہنے کا بھی کہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ حقیقی آزادی کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کا پلان بن رہا ہے، میں اس میں آپ سب کو شامل کرنا چاہتا ہوں۔

گذشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کو دیئے گئے انٹرویو میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما بابر اعوان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ میں " دیر نہیں ہے، الیکشن کے لیے آخری احتجاج، آخری جلسہ یا آخری دھرنا، اس کا فیصلہ عمران خان جلد کریں گے۔"

سہیل وڑائچ نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ عوامی دباؤ کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو مجبور کرسکیں گے کہ ان کے مطالبات مانے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سیلاب اور معاشی مشکلات سے نہیں نکل پارہے لہذا رواں سال میں عام انتخابات کی صورت نہیں نکل رہی ہے۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو گرا نہیں سکتے ہیں اور نہ ہی لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو ہائی جیک کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے ذریعے حکومت کا خاتمہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ملک میں انارکی پھیلی ہو، خون خرابے کا اندیشہ ہو جو کہ ایسی صورت حال نہیں ہے اور سیاسی جلسوں، تحریر و تقریر کی اجازت ہے۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آئے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ موجودہ دنوں میں ان کے مقتدر حلقوں سے تعلقات خراب ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کا مقصد بھی یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی عوامی طاقت دکھا کر اپنے مطالبات منوانے پر قائل کرلیں۔

جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے وہ تقاضا کررہے ہیں جو ان کے اختیار میں نہیں ہے اور الیکشن کا انعقاد حکومت کی رضا مندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے عوام اور اداروں کے درمیان لڑائی چاہیں گے تو صورت حال کسی کے اختیار میں نہیں رہے گی اور کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

XS
SM
MD
LG