عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ 'فیول سبسڈی' سمیت دیگر نکات پر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد ہی اسٹاف لیول معاہدہ ہو گا۔
پاکستان ساڑھے چھ ارب ڈالر قرض پروگرام کی جلد بحالی کا خواہش مند ہے لیکن وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف حکام سے مذاکرات کے کئی ادوار کے باوجود تاحال یہ پروگرام بحال نہیں ہو سکا ہے۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایستھر پیریز رئیوز نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ سارہ زمان کو ایک سوال کے جواب میں بذریعہ ای میل بتایا ہے کہ آئی ایم ایف جائزہ پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔
ایستھر پیریز کے مطابق پاکستانی حکام کی جانب سے حال ہی میں اعلان کردہ سستا پیٹرول پروگرام سمیت چند دیگر نکات پر حتمی بات چیت ہونا باقی ہے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد ہی اسٹاف لیول معاہدہ ہو گا۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے حال ہی میں سستا پیٹرول پروگرام شروع ہونے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت حکومت کے بقول امیروں سے پیٹرول پر اضافی قیمت وصول کر کے غریبوں کو سستا پیٹرول دیا جانا تھا۔ حکومت کا اصرار تھا کہ یہ اسکیم سبسڈی نہیں ہو گی۔سستا پیٹرول پروگرام پیش کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے دعویٰ کیا تھاکہ امیروں کو پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 100 روپے اضافی دینا ہوں گے جب کہ موٹرسائیکل اور 800 سی سی تک کی گاڑیاں رکھنےو الے 100 روپے سستا پیٹرول حاصل کرسکیں گے۔
حکومت کی یہ اسکیم کس طرح اور کب نافذالعمل ہونا تھی ابھی انہیں امور پر گفتگو ہو رہی تھی کہ آئی ایم ایف نے حکومت کے پروگرام پر تشویش کا اظہار کر دیا تھا۔
آئی ایم ایف ماضی میں بھی پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے خاتمے پر زور دیتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)کی حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف سے ساڑھے چھ ارب ڈالر قرض کا معاہدہ کیا تھا۔ بعدازاں اپنی حکومت کے آخری مہینوں میں پی ٹی آئی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر بھاری سبسڈی دی تھی جس سے خزانے کو ماہانہ 120 ارب روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔
ان وجوہات کی بنا پر آئی ایم ایف کا قرض پروگرام مہینوں معطل رہا تھا۔ بعدازاں موجودہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کیے جانے کے بعد ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھا تھا۔