ایسے میں جب کہ دنیا بھر کے کئی ممالک عالمی مالیاتی بحران کے دوسال بعد بہتر معاشی افزائش دکھارہے ہیں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عہدے داروں کا کہناہے کہ زیادہ تر لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے اب بھی کافی کچھ نہیں کیا جارہا۔ اور بے روزگاری کی اونچی شرح اور مہنگائی بدستور ان کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہوں نے، جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس کے لیے واشنگٹن میں جمع ہیں، سرکاری خساروں اور زرمبادلہ کے تبادلے کی شرحوں کے تنازع، جاپان میں حالیہ قدرتی سانحے کی معیشت پراثرات اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سیاسی بے چینی میں اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈومینیک سٹراس کاہن نے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے تسلسل پر اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے اس سے نمٹنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ صرف معاشی افزائش ہی کافی نہیں ہے کیونکہ پرانا نظریہ کہ معاشی افزائش سے سب کچھ درست ہوجاتا ہے، اب قابل عمل نہیں رہا۔ چنانچہ اب یہ بہت ضروری ہے کہ معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ، جوکہ ہمارے لیے ضروری ہے، ایسے نئے طریقے بھی تلاش کیے جائیں جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں مددگارثابت ہوسکیں۔
آئی ایم ایف کے سربراہ نے کہا کہ مصر اور تونس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، وہاں کی معیشتیں تیزی سے ترقی کررہی تھیں اور معاشی ماہرین ترقی کی رفتار سے مطمئن تھے ، لیکن بے روزگاری کی سطح بدستور اونچی رہی جس نے عوامی بے چینی کو جنم دیا۔
سٹراس کاہن نے کہا کہ انہیں ترقی پذیر ملکوں میں ایندھن اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر بھی تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ معاشی پیمانے پر دنیا بھر میں زیادہ تر معیشتں بہتر اعدادوشمار دکھارہی ہیں ، لیکن عوام کی اکثریت اس کے فوائد سے محروم ہے۔
ان کا کہناتھا کہ اکثر عام لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے معیار زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ اگرچہ یہ خلا بھرنا ہمارے ادارے کا کام نہیں ہے لیکن ہم اس سے اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزراء کی ملاقاتوں میں اس مسئلے پر بات ہوئی ہے اور میرا خیال ہے کہ ان ملاقاتوں کے دوران ہر ایک کو اس مسئلے کا احساس تھا۔
ہفتے کے روز ہونے والی پریس بریفنگ میں آئی ایم ایف کے عہدے داروں نے معاشی مسائل کے حل کے لیےوزراء خزانہ کے درمیان تعاون پر زور دیا۔
انہوں نے عالمی مالیاتی ادارے سمیت اقتصادی شعبے کے تمام اہم عناصر پر زور دیا کہ کسی نئے معاشی بحران کے خطرے سے بچنے کے لیے انہیں پہلے سے ہی عالمی سطح پر اقدامات کرنے چاہیں۔