عالمی مالیاتی فنڈ ’آئی ایم ایف‘ نے کہا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری جہاں ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کا سبب بنے گی، وہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ ان منصوبوں میں ہونے والے سرمایہ کاری کی ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ بات پاکستان کے لیے ’آئی ایم ایف‘ کے حال ہی میں مکمل ہونے والے پروگرام کے مختصر اقتصادی جائزے میں کہی گئی ہے۔
جائزے میں کہا گیا ہے اس اقتصادی منصوبے کے سبب "پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ سے ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر سکتی ہے"۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ جائزے میں اس حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد ان میں ہونے والے غیر ملکی سرمایہ کاری کی ادائیگیوں کے سبب ملک کو اقتصادی خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
’آئی ایم ایف‘ نے متنبہ کیا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے سبب ترسیلات زر کے مسائل سے پاکستان کو بہتر طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہو گی۔
حکومت بلوچستان کے سابق مشیر اور اقتصادی اُمور کے ماہر قیصر بنگالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ’آئی ایم ایف‘ کے جائزے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان میں جتنی بھی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے، اُس سے براہ راست سرمایہ کاری یا نج کاری کے ذریعے منافع کی بیرون ملک ترسیل کا ایک دروازہ کھولا ہے جو بہت زیادہ ہوتا چلا جا ر ہا ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ گودار بندرگاہ سے ہونے والی آمدن سے اس خسارے کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
" پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری جو ہونی ہے وہ مصنوعات کی پیدوار کے شعبے میں ہونی چاہیئے جو برآمد کی جا سکیں تاکہ اگر ایک ڈالر کی درآمد کے مقابلے میں 90 سینٹس بھی اگر باہر جاتے ہیں تو پاکستان کو دس سینٹ کا منافع ہو سکتا ہے۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ 46 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہدری منصوبے کی وجہ سے نا صرف ملک میں توانائی کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، بلکہ اس منصوبے کے تحت چین کے مغربی شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا جال بھی بچھایا جانا ہے۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ اس منصوبے سے نا صرف اندرون ملک سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا بلکہ دیگر ممالک بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔