رسائی کے لنکس

اسرائیل کو اسلحہ دے کر مغربی ملک جنگجوؤں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، ہیومن رائٹس واچ


ایک فلسطینی لڑکی غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کے صحن میں 7 نومبر کو الشاتی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی حملے کے بعد ہلاک شدگان کی لاشوں کو منتقل کیے جانے کے بعد۔فوٹو
ایک فلسطینی لڑکی غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کے صحن میں 7 نومبر کو الشاتی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی حملے کے بعد ہلاک شدگان کی لاشوں کو منتقل کیے جانے کے بعد۔فوٹو

  • بین الاقو امی قانون کی خلاف ورزی کے شواہد کے باوجود جو ریاستیں اسلحہ فراہم کر رہی ہیں وہ دوسری جگہوں پر جنگجوؤں کو با اختیار بنا رہی ہیں۔
  • امریکہ، جرمنی اور برطانیہ اسرائیل کے اقدامات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہیں اسلحے کی فروخت کو ختم کر کے ایسا کرنا چاہیے۔
  • اسرائیل اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ لڑائی میں بدسلوکی کرتا ہے یا وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔
  • ہیومن رائٹس کی سربراہ نے کہا کہ ایسی ریاستیں جو دیکھتی ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالی کے کوئی نتائج بھگتنا نہیں پڑتے تو وہ اسے اپنے اقدامات جاری رکھنے میں حوصلہ افزائی سمجھتے ہیں۔
  • ایسے وقت میں جب کہ مغربی ممالک روس کے یوکرین پر حملے کا احتساب مانگتی ہیں، روس اور چین جیسے ملک اس تضاد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنطیم نے جمعہ کو کہا کہ وہ ریاستیں جو بین الاقو امی قانون کی خلاف ورزی کے شواہد کے باوجود اسرائیل کو غزہ اور لبنان میں جنگیں جاری رکھنے کے لیے اسلحہ فراہم کر رہی ہیں وہ دوسری جگہوں پر جنگجوؤں کو با اختیار بنا رہی ہیں۔

"ہیومن رائٹس واچ" کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ترانہ حسن نے کہا کہ امریکہ، جرمنی اور برطانیہ اسرائیل کے اقدامات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہیں اسلحے کی فروخت کو ختم کر کے ایسا کرنا چاہیے۔

خبر رساں ادارے، رائٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "اگر اسرائیلی فوج کی حمایت جاری رہتی ہے اور مغربی حکومتوں کو اس بات کا علم ہو کہ یہ اسلحہ جنگی جرائم کے ارتکاب میں استعمال ہو رہا ہے تو پھر یہ بات اسلحے کی فروخت اور منتقلی کو روکنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔"

انہوں نے کہا کہ اس مرحلے پر جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو ایسے ملک جن کا کوئی اثرو رسوخ ہو اور جو تنازعہ میں شامل فریقوں کے رویہ کو روک سکیں تو یہ ملک امریکہ، برطانیہ اور جرمنی ہیں اور ایسا اسلحے کی فروخت اور منتقلی (روکنے) کے ذریعہ ممکن ہو گا۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ احتیاط برتتا ہے کہ شہریوں کو نقصان سے بچایا جا ئے ۔ اسرائیل اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس، اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ لڑائی میں بدسلوکی کا ارتکاب کیا ہے یا وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں میں چھپے اپنے دشمنوں سے لڑ رہا ہے جس سے اس کے آپریشنز زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں اقدامات کر رہا ہے۔

رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس نے اسرائیلی حکام سے ترا نہ حسن کے ریمارکس پر تبصرہ کرنے کو کہا ہے۔

ترا نہ حسن نے کہا کہ ایسی ریاستیں جو دیکھتی ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالی کے کوئی نتائج بھگتنے نہیں پڑتے تو وہ اسے اپنے اقدامات جاری رکھنے کیلئےحوصلہ افزائی سمجھتی ہیں۔

بقول انکے اسلحہ فراہم کرنے والی حکومتیں بین الاقو امی قانون، انسانی حقوق اور عالمی نظام کی قابل اعتبار محافظ کے طور پر خود اپنی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

انہوں نے کہا، اس بات سے یہ پیغام جاتا ہے کہ ہم پر اور ہمارے اتحادیوں پر اصولوں کا اطلاق دوسروں کے مقابلے میں مختلف ہے اور اس کے بہت سنگین نتائج ہوتے ہیں۔

ایسے وقت میں جب کہ مغربی ممالک روس کے یوکرین پر حملے کا احتساب مانگتے ہیں، روس اور چین جیسے ملک اس تضاد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

وہ مغرب کے دوہرے معیار کی نشاندہی کرنے میں دیر نہیں کرتے اور اسے نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔حسن نے کہا۔

ترانہ حسن نے رائٹرز کو انٹرویو اس وقت دیا جب اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران ہلاکتوں پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق کل ہلاکتوں میں 70 فیصد تعدادخواتین اور بچوں کی ہے۔

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں 13 ماہ سے جاری جنگ میں 43,500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کر کے 1,200 لوگوں کو ہلاک کردیا اور تقریباً 250 لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔

ترانہ نے کہا، "اس چیز کو دنیا کو متحرک کرنا چاہیے ۔ بچوں کی ہلاکتوں کا قطعأ کوئی جواز نہیں ہے۔"

واشنگٹن نے 13 اکتوبر کو اپنے اتحادی اسرائیل کو ڈیڈلائن دی ہےکہ وہ تیس دن میں غزہ میں انسانی بحران میں بہتری لائے یا پھر امریکی عسکری امداد پر ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرے۔

جب ترانہ حسن سے ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے نئے صدر منتخب ہونے کے ممکنہ اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے پہلے دور صدارت میں ان کی طرف سے بین الاقو امی قانون کے لیے عزم کی کم ہی یقین دہانی نظر آئی تھی۔

انہوں نے کہا،" اب ہم نے انتخابی مہم میں ان کے بیانات دیکھے ہیں جس میں انہوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ملک سے ڈی پورٹ کرنے کی دھمکی دی ہے اور اس سے ایک بہت پریشان کن پیغام جاتا ہے۔"

(اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG