ہیومن رائیٹس واچ کی نئی رپورٹ کے مطابق شام کی فضائی فوج اپنے ہی عوام پر بلا امتیاز اور بعض اوقات جان بوجھ کر فضائی حملے کر رہی ہے۔
اینا نیستیت ہیومن رائیٹس واچ کے ہنگامی پروگرام کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شام کا تنازعہ روز بروز خراب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شامی حکومت اپنے ہی لوگوں کو چن چن کر مار رہی ہے۔ ہیومن رائیٹس واچ کا ماننا ہے کہ ان حملوں میں اب تک ہزاروں شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
مقامی شامی سرگرم کارکنوں کے مطابق گذشتہ برس جولائی کے بعد سے اب تک حکومت کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں میں چار ہزار تین سو شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
جمعرات کو شائع ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ شام میں باغیوں کے زیر ِ تسلط علاقوں کے دورے اور وہاں ہونے والے پچاس فضائی حملوں کے جائزے پر مبنی ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ حکومتی افواج نے آٹھ مرتبہ جان بوجھ کر ان دکانوں کو اپنا نشانہ بنایا جہاں شہری خریداری کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
شامی حکومت نے اس رپورٹ میں شامل الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ جمعرات کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو پوری دنیا میں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
اس سے قبل شامی حکومت اس قسم کے کسی بھی الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ سے منسلک اول سول وینگ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی اور عام شہریوں کی ہلاکت روکنے کے لیے عالمی کاوشیں ضروری ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’ہیومن رائیٹس واچ بارہا اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل شامی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر دباؤ ڈالنے کے لیے کہتا رہا ہے۔ جب تک روس اور چین سیکورٹی کونسل کو کوئی اقدام اٹھانے سے روکتے رہیں گے وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں گی، فضائی حملے جاری رہیں گے اور شام میں زیادہ شہریوں کی ہلاکت ہوتی رہے گی۔‘‘
اینا نیستیت ہیومن رائیٹس واچ کے ہنگامی پروگرام کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شام کا تنازعہ روز بروز خراب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شامی حکومت اپنے ہی لوگوں کو چن چن کر مار رہی ہے۔ ہیومن رائیٹس واچ کا ماننا ہے کہ ان حملوں میں اب تک ہزاروں شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
مقامی شامی سرگرم کارکنوں کے مطابق گذشتہ برس جولائی کے بعد سے اب تک حکومت کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں میں چار ہزار تین سو شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
جمعرات کو شائع ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ شام میں باغیوں کے زیر ِ تسلط علاقوں کے دورے اور وہاں ہونے والے پچاس فضائی حملوں کے جائزے پر مبنی ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ حکومتی افواج نے آٹھ مرتبہ جان بوجھ کر ان دکانوں کو اپنا نشانہ بنایا جہاں شہری خریداری کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
شامی حکومت نے اس رپورٹ میں شامل الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ جمعرات کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو پوری دنیا میں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
اس سے قبل شامی حکومت اس قسم کے کسی بھی الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ سے منسلک اول سول وینگ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی اور عام شہریوں کی ہلاکت روکنے کے لیے عالمی کاوشیں ضروری ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’ہیومن رائیٹس واچ بارہا اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل شامی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر دباؤ ڈالنے کے لیے کہتا رہا ہے۔ جب تک روس اور چین سیکورٹی کونسل کو کوئی اقدام اٹھانے سے روکتے رہیں گے وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں گی، فضائی حملے جاری رہیں گے اور شام میں زیادہ شہریوں کی ہلاکت ہوتی رہے گی۔‘‘