انسانی حقوق کی مؤقر بین الاقوامی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' (ایچ آر ڈبلیو) نے اسکولوں کا تحفظ یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے پاکستان کی حکومت سے اسکولوں، اساتذہ اور طلبہ پر ہونے والے حملوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق مؤثر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کا یہ بیان جمعرات کی رات پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر اور چلاس میں 12 اسکولوں پر نامعلوم شرپسندوں کے حملے اور ان میں توڑ پھوڑ کے واقعات کے ردِ عمل میں سامنے آیا ہے۔
'ہیومن رائٹس واچ' کے بچوں کے حقوق سے متعلق امور کے ڈائریکٹر بیڈ شپرڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دیامر میں اسکولوں پر ہونے والے حملے ان خطرات کی عکاسی کرتے ہیں جن کا سامنا پاکستان میں طلبہ اور اساتذہ کو اکثر کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ان حملوں کی تحقیقات کر کے ان میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے اور اسکولوں کی حفاظت کو یقینی بنائے تاکہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ماضی میں بھی دیامر میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور فروی 2004ء میں حملہ آوروں نے نو اسکولوں کو تباہ کر دیا تھا جن میں سے آٹھ لڑکیوں کی اسکول تھے۔ دسمبر 2011 ء میں بھی علاقے میں دھماکہ خیز مواد سے دو اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سمیت ملک کے کئی دیگر علاقوں میں ماضی میں بھی اسکولوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ تاہم ملک میں تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملوں اور ان میں ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
البتہ اسکولوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی تنظیم 'گلوبل کولیشن ٹو پروٹیکٹ ایجوکیشن' کے مطابق 2013ء سے 2017ء کے دوران پاکستان میں اسکولوں پر 203 حملے ریکارڈ کیے گئے۔
دوسری طرف لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عالمی سطح پر سرگرم نوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ دیامر اور چلاس میں اسکولوں پر حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انتہا پسند ہر اس لڑکی سے خوف زدہ ہیں جس کے ہاتھ میں کتاب ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں ملالہ نے متاثرہ اسکولوں کی فوری تعمیرِ نو پر زور دیا ہے تاکہ ان کے بقول "طلبہ اپنے کلاس رومز میں واپس کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں اور دنیا کو یہ بتا سکیں کہ ہر لڑکی اور لڑکے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔"
دریں اثنا پاکستان کے نگران وزیر اعظم ناصر الملک نے گلگت بلتستان کے حکام کو چلاس اور دیامر میں اسکولوں پر ہونے والے حملوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق چلاس پولیس نے اسکولوں پر حملے میں ملوث ہونے کے شبہے میں اب تک 10 افراد کو حراست میں لیا ہے جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔
مقامی انتظامیہ کے ذمہ داران نے علاقے کی بااثر شخصیات کے ساتھ ایک جرگہ بھی کیا ہے جس میں عمائدین کو حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ملزمان کی فہرست دی گئی ہے۔
نمائندے کے مطابق علاقے کے عمائدین نے سول انتظامیہ اور پولیس کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ تمام مشتبہ افراد کو حکام کے حوالے کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔