رسائی کے لنکس

دہشت گرد حملوں سے پاکستان میں تعلیم کا شعبہ متاثر ہوا: رپورٹ


دسمبر 2014ء میں دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کو نشانہ بنایا
دسمبر 2014ء میں دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کو نشانہ بنایا

ہیومین رائٹس واچ کی طرف سے حکومت سے کہا گیا کہ وہ اسکولوں کی عمارتوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ تعلیمی اداروں، طالب علموں اور اساتذہ پر حملہ کرنے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ’ہیومین رائٹس واچ‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے حملوں کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر برے اثرات پڑے ہیں۔

ہیومین رائٹس واچ ’ایچ آر ڈبلیو‘ کی طرف سے یہ رپورٹ 27 مارچ کو جاری کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان اور دیگر دہشت گردوں نے پاکستان میں تعلیمی اداروں پر متعدد بار مہلک حملے کیے ہیں، اس رپورٹ میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ایسے حملے اس لیے ہوتے ہیں کیوں کہ یا تو عہدیدار دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں یا پھر اُنھیں باقاعدہ سزا دلوانے میں ناکام ہوتے ہیں۔

ہیومین رائٹس واچ کی طرف سے کہا گیا کہ اس طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کوئی تفریق نہیں کی جا رہی ہے اور اُنھیں سزائیں دلوانے کے لیے سویلین حکومت نے فوجی عدالتیں تک بنائیں۔

ہیومین رائٹس واچ کی طرف سے حکومت سے کہا گیا کہ وہ اسکولوں کی عمارتوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ تعلیمی اداروں، طالب علموں اور اساتذہ پر حملہ کرنے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

ماہر تعلیم اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے خدشات کا تدارک اُسی صورت ممکن ہے جب دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔

’’میرے خیال میںشمالی علاقوں اور قبائلی علاقوں میں ابھی بھی (دہشت گردی) ایک بڑا چیلنج ہے۔۔۔ وہاں پر بھی تعلیمی اداروں کو دھمکیاں ملتی ہیں ۔۔۔ لیکن یہاں ہمارے دوسرے علاقوں کے اندر صورت حال یہ ہے کہ فی الحال تو وہ محفوظ ہے لیکن کچھ پتہ نہیں ہے یہ لوگ کسی بھی وقت کچھ کر سکتے ہیں جب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا تمام دہشت گرد مارے نہیں جاتے یا تائب نہیں ہو جاتے اس وقت تک تو یہ خطرات باقی رہیں گے اور خاص طور پر تعلیم کو کیونکہ وہ (دہشت گرد) تعلیم کے مخالف ہیں اور وہ اس کو اپنے لیے غلط چیز سمجھتے ہیں تو خطرہ تو رہے گا۔‘‘

71 صفحات پر مبنی یہ رپورٹ صوبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے طالب علموں، اساتذہ اور والدین سے کیے گئے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی گئی۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے مہلک کے حملے کے علاوہ جنوری 2016 میں صوبہ خیبر پختونخواہ ہی میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے ایک بڑا حملہ کیا گیا تھا۔

پشاور اسکول پر حملے کے بعد ملک بھر میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی جب کہ تعلیمی اداروں کو بھی اس بارے میں اقدامات کرنے کی ہدایات کی گئی تھیں۔

ہیومین رائٹس واچ کی یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی جب رواں ماہ ہی پاکستان میں تعلیم کے شعبے سے متعلق ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ اب بھی ملک میں دو کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔

سرکاری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملک میں پرائمری سطح کے اسکولوں میں سے 21 فیصد اسکول ایسے ہیں جن میں صرف ایک استاد تعینات ہے جب کہ 14 فیصد اسکول محض ایک کمرے کی عمارت پر مشتمل ہیں۔

حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ نا صرف ملک میں بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دی جا رہی ہے بلکہ اسکولوں میں دیگر سہولتوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔

وفاقی محکمہ تعلیم کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران تعلیم کے مختص بجٹ میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور حکام کے مطابق یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

XS
SM
MD
LG