رسائی کے لنکس

چین کا 'سی پیک' منصوبے کو اپ گریڈ کرنے پر زور؛ پاکستان کتنا تیار ہے؟


بیجنگ نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اپ گریڈ کرنے کے لیے چین پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چینی قرضے اور پاکستان کی سیکیورٹی صورتِ حال سی پیک منصوبوں کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے یہ بات بدھ کو بیجنگ میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران چینی نائب وزیرِ خارجہ سن ویڈونگ کے حالیہ دورۂ پاکستان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بیجنگ، چین اور پاکستان کے درمیان سیاسی باہمی اعتماد اور عملی تعاون کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

چینی نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ کی قیادت میں ایک چینی وفد نے 20 سے 22 جنوری کو پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

دورے کے دوران اُنہوں نے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت سے ملاقات کے علاوہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے بھی ملاقات کی تھی۔

ملاقات میں دو طرفہ اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔ اس دورے کے دوران چینی نائب وزیرِ خارجہ نے سی پیک مشترکہ ورکنگ گروپ کے چوتھے اجلاس میں بھی شرکت کی تھی جس میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی بھی شریک ہوئے تھے۔

 سی پیک کے 10 سال: پاکستان کو کیا ملا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:07 0:00

چین کے نائب وزیرِ خارجہ کے پاکستان میں قیام کے دوران پاکستانی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں میں سی پیک کی کامیابی کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے اور کئی شعبوں بشمول انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔

سی پیک کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان اور چین سی پیک کے دوسرے مرحلے کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔

پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق سربراہ ہارون شریف کہتے ہیں کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل ہیں جن میں سڑکوں کی تعمیر، توانائی کے منصوبے اور گوادر پورٹ کا بنیادی ڈھانچہ بھی شامل تھے۔

ہارون شریف کہتے ہیں کہ چین نے اپنے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو' (بی آر آئی) کے منصوبے کے تحت پاکستان بھر میں ابتدائی طور پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری فراہم کی ہے اور اب وہ نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور بنیاڈی ڈھانچے کے لیے سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول چین کی طرف سے سی پیک کو اپ گریڈ کرنے کی بات ہو رہی ہے اس کا تعلق نجی سرمایہ کاری سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ابھی ساز گار ماحول کے یے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

چین اس بات کا خواہاں رہا ہے کہ پاکستان اپنے اکنامک زونز تیار کرے اور چینی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے سہولتیں فراہم کرے تاکہ نجی سرمایہ کاری پاکستان میں آئے۔

ہارون شریف کہتے ہیں کہ چین اس بات کا خواہاں کہ اکنامک زون فنکشنل ہوں جہاں تمام سہولتیں موجود ہیں، اس کے ساتھ سیکیورٹی کے خدشات کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ چینی کمپنیاں جو پاکستان میں منتقل ہونا چاہتی ہیں ان کے لیے ماحول سازگار ہو۔

چینی قرضوں کی واپسی بڑا مسئلہ

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چین سے سی پیک منصوبوں کے حاصل ہونے والوں قرضوں کو کیسے ادا کیا جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حفیط پاشا نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق سی پیک کے منصوبوں کے چین سے حاصل کرنے والوں قرضوں کا حجم لگ بھگ 40 ارب ڈالر ہے جو پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کے حجم کا لگ بھگ ایک تہائی کے برابر ہے۔

حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ اس وقت چین سے نئے قرض کے حصول کے لیے بات چیت کے بجائے زیادہ اہمیت اس بات کی ہونی چاہیے کہ پرانے قرضے کس طرح چین کو واپس کیے جائیں گے۔

ہارون شریف کہتے ہیں کہ جب پاکستان نے یہ قرضہ حاصل کر کے سی پیک منصوبے مکمل کر لیے ہیں تو اس کی ادائیگی بھی پاکستان کو ہی کرنی ہو گی۔

ہارون شریف مزید کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے پاس ان قرضوں کو فوری طور پر ادا کرنے لیے غیر ملکی زرِمبادلہ نہیں ہے تو اس معاملے کو پاکستان کو ہی حل کرنا ہو گا۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین سے مزید قرضے حاصل کرنے کے بجائے ملک میں سرمایہ کار ی کو فروغ دینا ہو گا تاکہ پاکستان پر قرضوں کا مزید بوجھ نہ پڑے۔

اقتصادی امور کے تجزیہ کار اور صحافی فرحان بخاری کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ سی پیک کے قرضوں نے پاکستان کو ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار کر دیا ہے۔ اُن کے بقول ایسی بات نہیں ہے بلکہ چین پاکستان کے قرضوں کو ری شیڈول کر چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ سی پیک کے وجہ سے پاکستان اور چین کے تعلقات پر منفی اثر پڑا ہے۔

فرحان بخاری کہتے ہیں کہ چین نے پاکستان کو اس وقت سی پیک کے لیے قرضے فراہم کیے تھے جب پاکستان کو توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری درکار تھی۔ سی پیک کے تحت توانائی اور بنیادی ڈھانچے بشمول سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG